
پاکستانی زیرانتظام جموں کشمیر کے خوبصورت سیاحتی مقام اور شہر مزاحمت کہلانے والے راولاکوٹ میں پانی کی شدید قلت ہے۔ گزشتہ چند سال سے برفباری نہ ہونے کے باعث اب شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور اکثریتی شہری ٹینکر خریدنے پر مجبور ہیں۔
راولاکوٹ ایک ایسا شہر ہے جو کسی بڑے نالے یا دریا کے کنارے نہیں ہے، تاہم پہاڑوں میں گھری وادی ہونے کی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح بہت بلند تھی جس وجہ سے شہر آباد ہوتا رہا اور پانی کا زیادہ مسئلہ کسی کو نہ ہوا۔ پانی کی سرکاری سطح پر فراہمی البتہ ہمیشہ سے ہی مسئلہ رہا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے زیرزمین پانی کے ذخائر بھی ختم ہوچکے ہیں۔ آج سے چند سال قبل تک شہر کے اندر 50 سے 80 فٹ تک کی گہرائی میں باآسانی پانی دستیاب ہوتا تھا، تاہم اب 400 فٹ گہرائی تک جا کر بھی بور کامیاب ہونا مشکل ہی ہوتا ہے۔
ارد گرد کی پہاڑیوں میں موجود آبادی کو ہمیشہ سے ہی پانی کی قلت کا سامنا رہا ہے۔ چند ایک قدرتی چشموں پر ہی یہ دیہات پانی کی کمی پوری کرنے کے لیے انحصار کرتے تھے، تاہم اب یہ قدرتی چشمے بھی خشک ہو چکے ہیں۔
حکومت نے پہلے ہی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی، اب بھی اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا ہے۔ واحد سورس دریک ڈیم میں بھی پانی کی شدید قلت ہے۔ توسیعی منصوبہ بھی التوا کا شکار ہے۔ سٹی ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کے زیرِ اہتمام بچھائی گئی واٹر سپلائی لائنیں بھی بری طرح متاثر ہیں اور شہر کی 20 فیصد آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔
شہر کی آبادی 2017 کی مردم شماری کے مطابق 56 ہزار تھی، تاہم بہت بڑی تعداد میں گزشتہ 8 سالوں کے دوران دیہاتوں سے شہر میں ہجرت ہوئی ہے۔ تاہم منصوبہ بندی نہ ہونے کے برابر ہے۔
پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق شہر کے اندر روزانہ پانی کی ضرورت 15لاکھ گیلن ہے، جس میں آنے والے پانچ سالوں میں 50 لاکھ گیلن تک اضافے کا امکان موجود ہے۔ تاہم اس کے لیے منصوبہ بندی نہ ہونے کے برابر ہے۔
گزشتہ 15 روز سے شدید خشک سالی کے باعث 70 فیصد بورنگ خشک ہوچکی ہیں۔ واٹر سپلائی سکیم کا پانی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پبلک ہیلتھ نے شہر میں ٹینکر فراہم کرنا بھی اس لیے بند کر دیا ہے کہ مین سورس میں پانی خشک ہو چکا ہے۔ شہر میں پرائیویٹ سطح پر ٹینکر فراہم کرنے والا سب سے بڑا سورس بھی اس لیے بند ہے کہ ان کا پانی بھی خشک ہوچکا ہے۔
اس وقت شہر میں دو چھوٹی ٹینکر سروس پانی فراہم کر رہی ہیں، جن کے پاس تین سے چار گاڑیاں ہیں اور وہ دن رات سروس دے رہے ہیں۔ یہ چھوٹا ٹینکر لوگوں کو کافی مہنگا پڑ رہا ہے، لیکن مجبوری میں اس وقت یہی واحد سہارا بن چکا ہے۔
پانی کے انتظام کے لیے پورا ایک محکمہ موجود ہے لیکن وہ زبانی جمع خرچ پر ہی وقت گزاری کر رہا ہے اور اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جا رہی ہے۔ اس وقت شہریوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔
شہر میں پانی کی قلت کی برفباری کم ہونے کے ساتھ ایک اور بڑی وجہ سفیدے کی بڑی تعداد میں کاشت بھی ہے۔ جلد تیار ہونے اور مارکیٹ میں اچھی قیمت پر فروخت ہونے کی صلاحیت رکھنے والا یہ درخت جہاں ماحول پر منفی اثر مرتب کرتا ہے، وہیں زیرزمین پانی کی سطح کو کم کرنے میں بھی بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ تاہم اس درآمد شدہ درخت کو تلف کرنے کے لیے بھی کوئی حکمت عملی نہیں بنائی جا سکی ہے۔
پانی کی قلت کی وجہ سے راولاکوٹ میں مسائل بڑھتے جا رہے ہیں، لیکن حکومت، متعلقہ محکمہ، انتظامیہ اور منتخب نمائندوں کی اس جانب توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پانی کی قلت سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جائیں۔ دریائے جہلم سے پانی لفٹ کرنے کے لیے ہنگامی منصوبہ بندی کی جائے اور پہاڑوں پر آباد دیہاتوں میں پانی کی فراہمی کے لیے ہنگامی منصوبے شروع کیے جائیں۔
واپس کریں