دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اشرفیہ کی مراعات ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں
No image پاکستان میں کوئی بھی وزیر خزانہ بجٹ بناتے وقت اس بات کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے کہ 90 ملین خواتین ناخواندہ ، گھریلو غلامی کا شکار ہیں، 30 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں، 60 ملین غذائی قلت کا شکار ہیں، 80 ملین سے زیادہ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔فلاحی ریاستوں کے بجٹ دولت اور آمدنی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتے ہیں تاکہ ہر ایک کو بنیادی ضروریات مل سکیں۔
اس کے برعکس ہماری حکومتیں اپنی امیر نواز ٹیکس پالیسیوں اور معیشت کے اشرافیہ زدہ ڈھانچے کے ذریعے امیروں کو زیادہ دولت کمانے کے بے مثال مواقع فراہم کرتی رہی ہیں، اور اس سال کا بجٹ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ 30 جون 2024 کو ختم ہونے والے مالی سال میں سرکاری رپورٹ کےمطابق ٹیکس کے اخراجات5840.2 بلین روپے تھے، جن کا فائدہ بہت سے با اثر افراد اور کاروباروں کو ہوا ،جب کے ان ٹیکس مراعات کے ہوتے ہوئے تنخواہ دار درمیانے طبقہ پر ٹیکس کا بوجھ غیر منصفانہ طور پر کئی گنا بڑھا دیا گیا ۔ پاکستان میں کوئی بھی وزیر خزانہ بجٹ بناتے وقت اس بات کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے کہ 90 ملین خواتین ناخواندہ ، گھریلو غلامی کا شکار ہیں، 30 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں، 60 ملین غذائی قلت کا شکار ہیں، 80 ملین سے زیادہ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس سال کا مالیاتی بل بھی ہمیشہ کی طرح امیر اور طاقتور کو تحفظ فراہم کر رہا ہے اور متوسط ​​طبقے اور غریبوں پر ٹیکسوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو حسب عادت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی پیشگی شرائط کا بہانہ بنا کر پیش کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی سربراہ نے کھلے طور پر کہا تھا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنے امیر افراد سے ان کی اسطاعت کے مطابق ٹیکس حاصل کرے‘‘۔ پاکستان کی معیشت مراعات یافتہ طبقوں (ریاستی اشرافیہ) کی خدمت کرتی ہے، جو کہ کل آبادی کا ایک فیصدسے بھی کم ہیں، لیکن ٹیکس دہندگان کے پیسے کی قیمت پر بے مثال مراعات اور فوائد حاصل کرتے ہیں
دوسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے باوجود آج تک ، شہباز شریف نے انتظامی ڈھانچے کی ساختی اصلاحات پر کوئی توجہ نہیں دی، اور نہ ہی ان کا کوئی ارادہ اشرفیہ کی مراعات ختم کرنے کا ہے ۔
حذیمہ بخاری اور ڈاکٹر اکرام الحق کے م مضمون مالیاتی بل 2025: آئینی خلاف ورزیوں، اشرافیہ نوازی اور عوامی استحصال کا مجموعہ سے انتخاب
واپس کریں