ایک منظم گینگ ، 400 سے زائد نوجوانوں کو جھوٹے توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنسا چکا ہے

قومی اسمبلی میں اُس وقت تشویش کی لہر دوڑ گئی جب پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی، شیر علی ارباب نے "توہینِ مذہب کاروباری گروہ" کی کارروائیوں کے خلاف آواز بلند کی، جس کے ذریعے افراد کو مسلسل پھنسانے کی اطلاعات سامنے آئیں۔
ارباب، جو پشاور سے ایم این اے ہیں، نے اپنی تقریر میں جذباتی انداز میں کہا کہ وفاقی حکومت کو اس توہینِ مذہب کاروباری گروہ کی تحقیقات کے لیے ایک علیحدہ کمیشن قائم کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ گروہ مبینہ طور پر ایک منظم گینگ ہے، جو اب تک 400 سے زائد نوجوانوں کو جھوٹے توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنسا چکا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ اس وقت ان افراد کے اہل خانہ کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے، جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے جو اس گینگ کے سرکاری اہلکاروں سے گٹھ جوڑ سے متعلق الزامات کی چھان بین کرے۔
شیر علی ارباب نے 25 جون کو قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے آغاز میں ایک مسیحی شخص، انور کینیٹھ، کا حوالہ دیا جنہیں 23 سال بعد سپریم کورٹ نے توہینِ مذہب کے مقدمے سے بری کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا:
"انور کینیٹھ کو سپریم کورٹ نے 23 سال بعد بری کیا۔ ان پر جھوٹا توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس ملک کے ایک بیٹھے ہوئے صوبائی گورنر (پنجاب کے سلمان تاثیر) کو اس لیے قتل کر دیا گیا کہ وہ توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار ایک مسیحی خاتون، آسیہ بی بی، کے حق میں بولے تھے۔ آسیہ بی بی کو بعد میں عدالتوں نے بری کر دیا۔ حیرت ہے کہ اتنے بڑے ملک میں، اتنے وسیع سیاسی حلقے کے باوجود، بہت کم لوگ اس سنگین مسئلے پر سنجیدگی سے بات کرتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ ان 400 افراد پر توہینِ مذہب کا الزام لگا کر انہیں جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے جن میں سے زیادہ تر غریب اور کمزور ہیں یہ 400 وکٹمز یا تو زیرِ سماعت ہیں یا پہلے ہی سزا یافتہ ہیں۔ ان نوجوانوں کو مبینہ طور پر دھوکہ دہی اور زبردستی کے ذریعے پھنسا کر کچھ گروپوں میں شامل کیا گیا، پھر ان پر توہینِ مذہب کے الزامات لگا دیے گئے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "تلخ حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگ توہینِ مذہب کے الزامات سے پیسہ کما رہے ہیں۔"
ارباب نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے جو ان جھوٹے مقدمات میں شواہد کی تیاری اور سازشوں کی تحقیقات کرے۔
"میں اس ایوان سے اپیل کرتا ہوں: اگر کچھ اور ممکن نہیں تو کم از کم حکومت ایک کمیشن تو بنائے جو اس نام نہاد 'توہینِ مذہب کاروباری گروہ' کی تحقیقات کرے — تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس کی وسعت کیا ہے، اور اس کا اثر کیا ہے۔ یہ حکومت کی طرف سے کم از کم قدم ہونا چاہیے۔"
یہ الزامات پنجاب پولیس کی اسپیشل برانچ کی جنوری 2024 کی رپورٹ سے سامنے آئے تھے، جس میں انکشاف کیا گیا کہ ایک مشتبہ گینگ نوجوانوں کو توہینِ مذہب کے کیسز میں پھنسا کر، بعض ایف آئی اے افسران سے مل کر، پیسے بٹور رہا ہے۔ رپورٹ میں اس گینگ کی خفیہ سرگرمیوں کی تحقیقات کی سفارش کی گئی تھی۔
قومی انسانی حقوق کمیشن (NCHR) نے بھی اپنی رپورٹ میں ان ہتھکنڈوں کو تسلیم کیا، اور بتایا:
"نوجوانوں کو خواتین آپریٹیوز کے ذریعے، فرضی ناموں کے ساتھ، آن لائن توہین آمیز سرگرمیوں میں پھنسا کر گرفتار کروایا گیا۔"
مزید برآں، این سی ایچ آر کی رپورٹ میں طریقہ کار کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا گیا:
"گرفتاریاں اکثر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بجائے نجی افراد کرتے تھے، اور گرفتاری کے دوران اور بعد میں تشدد کی تشویشناک اطلاعات بھی سامنے آئیں۔ ملزمان سے زبردستی بیانات لیے گئے، جن کی قانونی حیثیت مشکوک ہے۔"
ستمبر 2024 میں، 100 سے زائد قیدیوں کے اہل خانہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تاکہ جھوٹے شواہد کے الزامات پر ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 31 جنوری 2025 کو اپنے فیصلے میں وفاقی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات کرے
عدالتی حکم میں کہا گیا:
"کمیشن میں ایک ریٹائرڈ جج (ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ)، ایک ریٹائرڈ سینئر ایف آئی اے افسر، ایک دینی اور روشن خیال اسکالر جو عوامی خدمت کا تجربہ رکھتا ہو، اور ایک انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ماہر شامل ہو، تاکہ تکنیکی نوعیت کے معاملات کو سمجھا جا سکے۔"
عدالت نے کمیشن کے قواعد و ضوابط (TORs) کے بارے میں کہا کہ یہ ان رپورٹوں کی بنیاد پر تیار کیے جا سکتے ہیں جو درخواست کے ساتھ منسلک کی گئی ہیں یا جو مزید ثبوت کمیشن کے سامنے پیش کیے جائیں۔
عدالتی حکم کے مطابق:
"کمیشن یہ تعین کرے کہ آیا جھوٹے الزامات لگا کر توہینِ مذہب کے قوانین کا غلط استعمال کیا گیا، اور جہاں تک ممکن ہو، یہ معلوم کیا جائے کہ اس بدسلوکی کے ذرائع، طریقے اور مرتکب افراد کون تھے۔"
( رپورٹ وائس ڈاٹ پی کے )
واپس کریں