
سپریم کورٹ کے نظرثانی درخواستوں کی منظوری اور پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے 12 جولائی 2024 کے فیصلے کے نتیجے میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 77 مخصوص نشستیں (قومی اسمبلی میں 22 اور صوبائی اسمبلیوں میں 55) حکومتی اتحاد (مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جے یو آئی ف وغیرہ) کو مل جائیں گی۔ اس سے حکومتی اتحاد کی پارلیمنٹ میں اکثریت مضبوط ہوگی، جس سے قانون سازی اور آئینی ترامیم کرنا آسان ہو جائے گا، خاص طور پر دو تہائی اکثریت کے حصول کے لیے جو آئینی ترامیم کے لیے ضروری ہے۔یاد رہے الیکشن ایکٹ 2017 میں کی گئی حالیہ ترامیم، جن کا مقصد ہی مخصوص نشستوں کے حوالے سے عدالتی فیصلوں کو متاثر کرنا تھا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ فیصل کے نتیجے میں عوام کو کسی قسم کے ریلیف ،سہولت یا آسانی ملنے کی توقع ہے؟ جی نہیں کیونکہ حکومت کا مقصد صرف اور صرف ایک تھا کہ کسی طرح سے پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی نمائندگی کم ہو جائے۔ باالفاظ دیگر 26 ویں آ ئینی ترمیم کا مقصد ہی یہی تھا جو اب پورا ہوا ہے۔
ممکنہ طور پر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اتحادی حکومت کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت ملنے کی توقع ہے،جس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسی قانون سازی اور آئین میں ترامیم کی جائیں جس سے عام آدمی کو فائدہ اور اس کی زندگی آسان ہو سکے مگر ایسا ہو گا نہیں،حالیہ دو سالوں میں اس اتحادی حکومت کے پاس جو اختیارات تھے ان کے مطابق بھی عوام کے ریلیف کے لیئے بہت کچھ کیا جا سکتا تھا مگر ماسوائے ججوں اور ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھانے،اشرافیہ کے لیئے مذید سہولیات پیدا کرنے اور عالمی ساہو کار آ ئی ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد اس ملک کے عام عوام کو بھی قسم کے ریلیف ملنے کی توقع نہیں ہے۔
بالی ووڈ کی فلم میں نئی بہو اپنی ساس سے مخاطب ہو کر کہتی ہے،کھانا بنانا،کپڑے دھونا،گانا بجانا سب آتا ہے لیکن کروں گی نہیں۔یہ اتحادی حکومت بھی عوام کے ریلیف کے لیئے سب کچھ کر سکتی ہے لیکن کرے گی نہیں۔اس اتحادی حکومت کے تیور اور ارادے دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ الحفیظ الامان۔
واپس کریں