دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کوئی ظہرانہ مفت نہیں ہوتا بالخصوص وہ جس کی میزبانی وائٹ ہاؤس کرے
No image ( باقر سجاد سید کے ڈان نیوز میں شائع مضمون کے چند اقتاسابات)18 جون وائٹ ہاؤس میں ایک غیر معمولی دن تھا۔ اس سے پہلے کبھی کسی امریکی صدر نے پاکستان کے حاضر چیف آف آرمی اسٹاف کی خصوصی، اعلیٰ سطح پر میزبانی نہیں کی۔ دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں پر مشتمل فوجی تعاون کے باوجود اس نوعیت کی کسی ملاقات کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس ملاقات میں پاکستان کے کسی سویلین نمائندے نے شرکت نہیں کی۔ نہ سفیر، نہ وزیر خارجہ، صرف آرمی چیف اور پاکستان کے اعلیٰ انٹیلی جنس افسر لیفٹیننٹ عاصم ملک جو قومی سلامتی کے مشیر ہیں، ظہرانے میں موجود تھے۔
امریکا کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ، سیکریٹری آف اسٹیٹ سینیٹر مارکو روبیو اور مشرق وسطیٰ کے امور کے خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکوف نے شرکت کی لیکن کیبنٹ روم کا منظر جہاں ٹرمپ پاکستانی جرنیلوں کے سامنے بیٹھے جبکہ پاکستان کی سیاسی قیادت کی غیرموجودگی کئی تناظر میں پریشان کن تھی۔
’کوئی بھی غیرملکی حکومت جو جمہوریت سے اتحاد یا حمایت مانگتی ہے وہ عام طور پر سویلین قیادت کے ساتھ معاملہ طے کرتی ہے‘، سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ’لیکن پاکستان اب ایک بالکل مختلف پیغام دے رہا ہے!ٹرمپ کے لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ لنچ ایک زبردست اقدام تھا جیسا کہ اسرائیل نے امریکا کو ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا اور امریکی فوجیوں نے خاموشی سے خلیج میں اپنی پوزیشنیں تبدیل کر دیں۔ ٹرمپ ایک ایسے پارٹنر کی تلاش میں تھے جو خطے کے قریب ہو اور مضبوط انٹیلی جنس صلاحیتوں کا حامل ہو۔ ان کے نزدیک پاکستان اس تعریف پر پورا اترتا ہے اس ملاقات میں کیا شامل تھا؟ ایران کی جوہری خواہشات، اسرائیلی حملے، یا وسیع تر علاقائی افراتفری؟ ابھی تک کچھ واضح نہیں ہے۔ شاید جان بوجھ کر ابہام برقرار رکھا گیالیکن ایک سچائی باقی ہے۔ اسلام آباد کی ایئر یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر عادل سلطان نے کہا ’کوئی ظہرانہ مفت نہیں ہوتا خاص طور پر وہ جو وائٹ ہاؤس میں ہو۔ ہمیں ایک بار پھر فرنٹ لائن ریاست بننے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘۔
واپس کریں