ایک اور دیانت دار سرکاری افسر ٹاوٹ مافیا کی بھینٹ چڑھ گیا

(رپورٹ: احتشام الحق شامی) چیف ایگزیکٹو آفیسر محکمہ تعلیم ضلع راولپنڈی (سی ای او ایجوکیشن) امان اللہ خان کو اینٹی کرپشن نے گرفتار کر لیا ہے اور ان پر الزام یا جرم جو تا حال ثابت نہیں ہوا وہ 0 8 لاکھ روپے کے سرکاری فنڈز خرد برد کرنے کا ہے۔یہی نہیں بلکہ ان کے اوپر بعد میں ہراسمنٹ کا کسی بھی ڈال دیا گیا ہے اور محکمہ اینٹی کرپشن راولپنڈی نے سی ای او ایجوکیشن کے دفتر کا تمام ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے۔
سی ای او محترم امان اللہ خان حافظ قرآن ہیں اور PhD ہیں اور میرٹ پر چند ماہ قبل ہی تعینات ہوئے تھے۔ ان کا ایک جرم یہ بھی ہے کہ میرٹ پر کام کرتے ہیں اور ہر دل عزیز ہیں،ان کی ایمان داری، دیانت اور شرافت کی گواہی اس وقت پورا راولپنڈی ڈویژن دے رہا ہے۔یہ ناچیز بھی راولپنڈی سے تعلق رکھتا ہے اور کبھی بھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن مصدقہ اطلاعات اور اپنے مستند زرائع کے مطابق دعوے سے کہتا ہے کہ شہر میں پہلی مرتبہ محکمہ تعلیم میں بغیر سفارش کے میرٹ پر کوئی ایسا افسر تعینات ہوا ہے۔ راولپنڈی ڈویژن سے تعلق رکھنے والے تما م ایم این اے اور ایم پی ایز بھی محترم امان اللہ خان صاحب کی بے گناہی کی گواہی دے رہے ہیں۔
تصویر کا دوسرا رخ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بے گناہ سرکاری افسر کو قربانی کا بکرا کیوں بنایا گیا ہے۔
وزیر اعلی محترمہ مریم نواز نے پنجاب بھر کے سرکاری اسکولوں کو اسٹیٹ آف دی آرٹ بنانے کے غرض سے 110 بلین روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے،اس کے دیگر تعلیمی اداروں کی اپ گریڈشن کے لیئے بھی بھاری فنڈز بھی ایلو کیٹ کیئے گئے ہیں۔ راولپنڈی شہر کے دو اسکولوں جامعہ اسلامیہ اسکول برائے طالبات ڈھوک کشمیریاں اور مسلم ہائی اسکول فار بوائز سید پور روڈ بھی اسی پراجیکٹ کا حصہ ہیں۔اب چونکہ اگلا مرحلہ سکولوں کے پراجیکٹ کی تعمیر کا ہے اس لیئے ٹھیکیدار اور کمیشن مافیا حرکت میں آیا ہوا ہے اور ”کاروائی“ ڈالنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ راولپنڈی کے حوالے سے”کاروائی“ ڈالنے میں سب سے پہلے بڑی رکاوٹ سی ای او ایجوکیشن کی سیٹ تھی جس پر ایک ایمان دار افسر بیٹھا ہوا تھا،جس کام امان اللہ خان تھا جو اس وقت ایک جھوٹے اور بوگس کیس میں گرفتار ہے۔
اس کے اگلا مرحلہ مذکورہ تصویر کا تیسرا رخ
اطلاعات کے مطابق راولپنڈی کی ایک نجی ہاوسنگ سوسائیٹی کے مالک اور ایک ن لیگی ایم پی اے کے درمیان اسی دیانت دار افسر کی وجہ سے پھڈا پڑا ہے،نجی ہاسنگ سوسائیٹی کا ملک مذکورہ پراجیکٹ کی تعمیر میں دلچسپی رکھتا تھا اور سی ای او امان اللہ خان کو اپنے راستے کی رکاوٹ،لہذا ساز باز کر کے سی ای او کی سیٹ پر اپنے منظور نظر افسر کو تعینات کرانے کی کوششیں شروع کر دیں گئیں جو بل آخر کامیاب ہوئیں جس کا پسِ منظر ملاحظہ فرمائیں کہ ٹاوٹ اور کمیشن مافیا پنجاب میں کتنا با اثر ہو چکا ہے۔ سی ای او ایجوکیشن امان اللہ خان صاحب کو جب پنڈی سے لاہور کا ٹرانسفر آرڈر موصول ہوا تو اسی لمحے وہ اپنی کرسی چھوڑ گئے۔اس بارے میں جب راولپنڈی کے منتخب نمائندوں نے وزیرِ تعلیم سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ موجودہ سی ای او کو ابھی تعنیات ہوئے چند ہی ماہ ہوئے ہیں جبکہ ان کا عرصہ تعناتی تین سال ہے اور ہمیں ان سے کوئی شکایت بھی نہیں لیکن اس کے باوجود وزیر صاحب نے کوئی مثبت جواب دینے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔
جب اس امر کی اطلاع راولپنڈی کے ایم پی ایز کو ہوئی تو پنجاب اسمبلی میں انہی سی ای اوصاحب کے حق میں تحریک استحقاق پیش کی گئی کہ یہ قابل اور دیانت دار افسر ہیں ان کی تعیناتی کو بھی ابھی چند ماہ ہوئے ہیں،ان کا تبادلہ نہیں کیا جائے،اسپیکر صاحب نے فوری طور وزیرِ تعلیم کو طلب کیا اور موقع پر تبادلہ منسوخی کے احکامات جاری کروائے جس کے بعد اور امان اللہ خان صاحب نے را وپنڈی پہنچ کر اپنا اپنا دفتر دوبارہ جوائن کر لیا جس پر اساتذہ کرام اور پنڈی ڈویژن کے تمام مکاتب فکر کے لوگوں نے حکومت پنجاب کا شکریہ ادا کیا لیکن اسی روز شام کو سی ای او محکمہ تعلیم امان اللہ خان کے جوائنگ آرڈر منسوخ کر دیئے گئے اور اینٹی کرپشن پولیس انہیں گرفتار کر کے لے گئی۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ جب وزیر تعلیم کو اسپیکر صاحب نے تبادلہ آرڈر کی منسوخی کا کہا تو اس وقت وزیر صاحب سی ای او امان اللہ خان کی ”کرپشن“ بتانا کیوں بھول گئے؟
مقامِ افسوس ہے کہ مخصوص مفادات کی خاطر محض سیٹ خالی کروانے کے لئے ایک معزز استاد کو یوں رسوا کیا جا رہا ہے جو کہ قابل مذمت فعل ہے۔
الزام لگانے والے کس عدالت کے جج یا کسی ٹربیونل کے سربراہ ہیں جو اپنے ہی قانون اورضابطہ کے تحت ایک معزز استاد کی تزلیل کر رہے ہیں؟ کیا پیکا ایکٹ یہاں نہیں لگتا؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس افسوس ناک واقع میں بھی ہمارے نظام عدل کی طرح پھانسی کے بعد بے گناہی کا اعلان ہی نہ کرنا پڑ جائے۔
واپس کریں