جو اسلام ان منبروں نے سکھایا، وہ دراصل ’سی آئی اے کاversion تھا۔

(ڈاکٹر مسعود عالم)سی آئی اے کے ملاؤں سے آگے سوچیے: ایران کو فرقہ وارانہ چشمے سے مت دیکھیں1979 میں سی آئی اے کے “آپریشن سائیکلون” کے تحت افغان مجاہدین کو سوویت افواج کے خلاف مسلح کرنے کی مہم شروع ہوئی، جس نے پورے خطے میں اسلامی فلسفے، مذہبی تعلیمات اور معاشرتی ہم آہنگی کو بگاڑ کر رکھ دیا۔
پاکستان کی آئی ایس آئی اور سعودی عرب کے اشتراک سے یہ امداد محض اسلحہ یا حکمتِ عملی کی فراہمی نہ تھی، بلکہ ایک مخصوص، سخت گیر فرقہ پرست مذہبی نظریے کو فروغ دینے کے لیے دی گئی، جس نے انقلابی شیعہ اور سنی روایات کو نہ صرف پس پشت ڈالا بلکہ انہیں “دشمن اسلام” قرار دے کر نشانہ بھی بنایا۔
یہ جہاد کسی فکری یا روحانی احیاء کا حصہ نہیں تھا، بلکہ ایک مخصوص امریکی منصوبہ تھا جس کے تحت مذہبی مدارس، نصاب، فتوے، اور "جہادی" ثقافت کو ایک باقاعدہ سی آئی اے اسکرپٹ کے مطابق پروان چڑھایا گیا۔
سویت حملے سے بھی پہلے، جولائی 1979 میں امریکہ نے $695,000 کی غیر مہلک امداد روانہ کی جو 1980 میں $30 ملین اور 1987 میں $630 ملین سالانہ تک جا پہنچی۔
یہ رقم جان بوجھ کر سخت گیر دھڑوں کو دی گئی مثلاً گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کو تاکہ مذہبی بنیادوں پر چلنے والی ملیشیاؤں کو جنگ میں غلبہ حاصل ہو۔ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل اختر عبد الرحمن نے، جنرل ضیاء الحق کی منظوری سے، ان ہتھیارات کی تقسیم کی ذاتی نگرانی کی، اور فرقہ واریت کو اس "جہاد" کی بنیادی ساخت میں بٹھا دیا۔
اس آپریشن کی تفصیلات سٹیو کول کی کتاب Ghost Wars، لارنس رائٹ کی The Looming Tower، اور دیساہ کراس ڈی ساہل کی Unlawfully سمیت دیگر دستاویزات سے تصدیق کی جا سکتی ہیں۔
یہ نظریاتی یلغار میدان جنگ سے آگے بڑھ کر تعلیم تک پہنچی۔ یونیورسٹی آف نیبراسکا–اوماہا کے تھامس گوٹیئر کی زیر قیادت Center for Afghanistan Studies نے یو ایس ایڈ کے معاہدے کے تحت 1.5 کروڑ سے زائد کتابیں تیار کیں جن میں گولیاں گننے کے ریاضیاتی سوالات، شہادت کی تمجید، اور سوویتوں کو "اسلام کے دشمن" کے طور پر پیش کیا گیا۔
یہ کتابیں پاکستانی مدارس اور افغان کیمپوں میں تقسیم ہوئیں. اور بعد میں طالبان نے انہیں دوبارہ استعمال کیا جس سے ایک پوری نسل کے اذہان میں عسکری، تفرقہ پرست "اسلام" بٹھا دیا گیا۔
پاکستان میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، اور حرکت الجہاد الاسلامی (فضل الرحمن خلیل) جیسے گروہوں نے سی آئی اے کا تیار کردہ بیانیہ آگے بڑھایا۔ فتوے، جلسے، جہادی خطبات اور افغانستان کے لیے "کارواں" چلائے گئے۔
ان مذہبی شخصیات نے اسلام کو امریکہ کے لیے کرایے پر دے دیا۔ انہیں نہ صرف مالی مدد دی گئی بلکہ سیاسی و میڈیا کوریج، عسکری تربیت، اور ادارہ جاتی تحفظ بھی فراہم کیا گیا۔
سعودی عرب نے سی آئی اے کی ہدایات کے مطابق نہ صرف مالی امداد دی بلکہ وہابی نظریات کو پھیلانے کے لیے اپنے علما، نصاب اور مدارس کے نیٹ ورک کو پاکستان، افغانستان، اور وسطی ایشیا تک وسعت دی۔
8,000 سے زائد مدارس میں شیعہ کے خلاف نفرت انگیز نصاب پڑھایا گیا، جنہوں نے بعد میں لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ جیسے فرقہ وارانہ گروہوں کو جنم دیا۔
1989 میں سویت انخلا کے بعد یہ تنگ نظر جہادی نظریہ کشمیر منتقل ہوا۔ لشکر طیبہ، حرکت المجاہدین، حرکت الانصار جیسے گروہوں نے جنگجو اور اسلحہ کشمیر میں جھونک دیا۔
دوسری طرف پاکستان میں شیعہ قتل کا آغاز ہوا 4,000 سے زائد شیعہ افراد (1987–1995) میں قتل ہوئے۔
اور یہی سی آئی اے ساختہ نفرت جب ہندوستان پہنچی، تو اس نے ہندوتوا کو نئی توانائی دے دی۔ بھارتی ریاست، دہشت گردی کے خلاف ردعمل میں، خود ایک مذہبی شدت پسند ریاست میں ڈھل گئی۔ آج بھارت میں اقلیتیں غیر محفوظ، اور سیکولر آئین زوال کا شکار ہے۔
وہی شخصیات جو اس "جہاد" کو دین کی خدمت کہتی تھیں، بعد میں خود اس کے امریکی منصوبہ ہونے کا اعتراف کر بیٹھیں۔
2002 میں قاضی حسین احمد نے تسلیم کیا:
"افغان جہاد، اسلام کی نہیں، امریکہ کی جنگ تھی۔"
2004 میں مولانا فضل الرحمن نے پارلیمنٹ میں کہا:
"ہم اس وقت ریاستی اداروں اور امریکہ کے ہتھیار تھے۔"
9/11 کے بعد سعودی عرب نے ان تمام شخصیات اور اداروں سے فاصلہ اختیار کر لیا، مدرسہ نیٹ ورک بند کیے، اور سرکاری سطح پر لاتعلقی کا اعلان کیا۔
یہ “اسلام” نہ رسول ﷺ کا تھا، نہ قرآن کا، نہ صحابہ کا، نہ ائمہ کرام کا۔ یہ وہ "اسلام" تھا جو سی آئی اے کے اسکرپٹ پر لکھا گیا، سعودی مالیات سے چھاپا گیا، اور پاکستانی مدارس میں ازبر کروایا گیا۔
یہ لوگ اسلامی علما نہیں، بلکہ ایسے بیوپاری تھے جنہوں نے مذہب کی بولی لگا دی۔ ان کا تیار کردہ "اسلام" قتل، نفرت، تنگ نظری، اور سیاسی غلامی کا سبق دیتا ہے. انسانی برابری، عدل، تقویٰ اور حریت کا نہیں۔
آج جب کوئی ایران–امریکہ کشمکش کو صرف ان ہی خیالات سے دیکھتا ہے، تو وہ دراصل سی آئی اے کے تیار کردہ بیانیے کو اپناتا ہے، نہ کہ قرآن یا سنت کی فہم کو۔
لہٰذا یاد رکھیں:
جو مذہب ان منبروں نے سکھایا، وہ دراصل ’سی آئی اے کاversion تھا، نہ کہ حقیقی اسلام ۔
اصل بیداری وہی ہے جو انسانیت، وحدت، اور قومی خودمختاری پر مبنی ہو۔
واپس کریں