دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا امریکہ ایران پر حملہ کرے گا؟
No image حالیہ خبروں اور پیشرفت کے مطابق، اس بات کا کوئی واضح اشارہ نہیں ہے کہ امریکہ ایران پر فوری حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تاہم، دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بلند سطح پر ہے اور بعض اقدامات یا حالات کے بگڑنے سے فوجی تصادم کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔
امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات 1979 کے ایرانی انقلاب سے کشیدہ ہیں۔ حالیہ دنوں میں، اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری تنازع نے کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو کھلے عام دھمکیاں دی ہیں اور اسرائیل کی حمایت میں امریکی فوج کو متحرک کرنے پر غور کر رہے ہیں لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ایران پر بمباری کریں گے یا نہیں، گویا اس بارے میں مذاق کیا، جس سے ان کے ارادوں میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ دوسری طرف، ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے مداخلت کی تو اس کے "ناقابل تلافی نقصانات" ہوں گے اور یہ علاقائی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ یہ بیانات صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن فوری حملے کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔
ایران پر حملہ کرنے کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ایران کے پاس خطے میں ایک مضبوط اور تجربہ کار فوجی موجودگی ہے اور وہ حزب اللہ اور عراق میں ملیشیا جیسے پراکسی گروپوں کی حمایت کرتا ہے، جو امریکی فورسز کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر، 2020 میں جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد ایران نے عراق میں عین الاسد بیس پر حملہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ، ایران کا تنگہ ہرمز جیسے اہم مقامات پر کنٹرول عالمی تیل کی سپلائی کو متاثر کر سکتا ہے، جس سے معاشی نقصانات بڑھ سکتے ہیں۔ ان خطرات کی وجہ سے، ایران کے ساتھ براہِ راست فوجی تصادم امریکہ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
امریکہ میں اندرونی سیاست بھی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ایران پر حملہ ہوگا یا نہیں۔ عوامی رائے، کانگریس کی حمایت، اور صدر کا مؤقف اہم عوامل ہیں۔ فی الحال، مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کے لیے عوامی یا سیاسی حمایت بہت کم ہے، خاص طور پر عراق اور افغانستان کی طویل اور مہنگی جنگوں کے بعد۔ صدر ٹرمپ کا رویہ غیر متوقع رہا ہے، لیکن ان کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فوجی اختیارات پر غور کر رہے ہیں، مگر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ اس کے علاوہ، امریکی فوج پہلے ہی دیگر خطوں میں مصروف ہے، جس سے ایران کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی عملی صلاحیت محدود ہو سکتی ہے۔
عالمی حالات بھی اس امکان کو متاثر کرتے ہیں۔ اسرائیل جیسے اتحادی ایران کے جوہری پروگرام اور پراکسی گروپوں کے خلاف سخت کارروائی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ لیکن یورپی ممالک، جیسے جرمنی، فرانس، اور برطانیہ، سفارتی حل کے حق میں ہیں اور ایران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، روس اور چین جیسے ممالک امریکی فوجی کارروائی کی مخالفت کر سکتے ہیں، جو صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔
اگرچہ امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی بہت زیادہ ہے، لیکن قریب مستقبل میں حملے کے آثار واضح نہیں ہیں۔ تزویراتی خطرات، اندرونی سیاسی دباؤ، اور عالمی سفارتی کوششیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ فوجی تصادم فوری طور پر متوقع نہیں۔ تاہم صورتحال غیر مستحکم ہے اور اگر ایران کی طرف سے کوئی اشتعال انگیزی یا اسرائیل کے اقدامات بڑھے تو حالات بدل سکتے ہیں۔ فی الحال، امریکہ ایران کو پابندیوں اور سفارتی دباؤ سے قابو کرنے پر توجہ دے رہا ہے، نہ کہ براہِ راست فوجی کارروائی پر۔
واپس کریں