
پاکستان کہنے کو ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے لیکن بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو حکومت نے جتنے اختیار دے رکھے ہیں انھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ عملی طور پر ملک کو عالمی ساہوکار کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔ اب وزیراعظم محمد شہباز شریف کا تازہ بیان ہی دیکھ لیا جائے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ بجلی کی قیمتوں پر آئی ایم ایف کے نہ ماننے کا کھٹکا اب نہیں رہا۔ ان کے مطابق، سربراہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ منصوبہ بناکر لائیں ہم بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وزیراعظم نے وفاقی کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا، وزیراعظم، جب یہ پروگرام ہمارے فورم پر زیر بحث تھا تو بہت سی منفی باتیں کی گئیں، ہم نے دیکھا کہ ماضی کی باتوں کو دہرایا گیا۔ شہباز شریف کے بقول، سربراہ آئی ایم ایف نے کہا کہ وزیراعظم، میں نے رسک لے کر یہ فیصلہ کیا ہے اور میں باور کرانا چاہتی ہوں کہ ماضی گزر چکا اور اب صورتحال مختلف ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں نے ایم ڈی آئی ایم ایف کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ ہم مل کر مخالفین کو غلط ثابت کرکے دکھائیں گے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ سربراہ آئی ایم ایف نے بہت اچھے انداز میں پاکستانی حکومت کی تعریف کی، میں نے حالیہ برسوں میں بین الاقوامی فورم کے سربراہ کے اس قسم کے الفاظ نہیں سنے۔
اس موقع پر وزیراعظم نے وزیر خزانہ، وزیر تجارت سمیت وفاقی کابینہ کے ارکان کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تالیاں بجائیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف کی سربراہ نے وزیر توانائی، وزیر تجارت، نائب وزیراعظم، وزیر دفاع سمیت سب کی تعریف کی لیکن میں نے انھیں کہا کہ اب صنعتیں‘ برآمدات اور معیشت تب ہی چلیں گی جب پیداواری قیمتیں کم ہوں گی، نمو تب ہی ہوگی جب ہمارا ڈیوٹی سٹرکچر اور توانائی کی قیمتیں کم ہوں گی، روزگار اور پیداوار تب بڑھے گی جب ہم دنیا کے ممالک کا مقابلہ کرسکیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ میں نے نائب وزیراعظم کو ہدایت کی ہے کہ صوبوں کے ساتھ مل کر آئی ایم ایف کے پاس جائیں، وہ بات کرنے کے لیے تیار ہیں، اگر ہمیں اپنی صنعتوں اور معیشت کو توانا کرنا ہے تو محنت کریں اور یہ منصوبہ بنا کر لائیں۔
وزیر اعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق، وزیر اعظم اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کی ورلڈ گورنمنٹس سمٹ (ڈبلیو جی ایس) 2025ء کے موقع پر دبئی میں ملاقات ہوئی جس میں کرسٹالینا جارجیوا نے آئی ایم ایف کے تعاون سے چلنے والے قرض پروگرام کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے میں حکومت پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت استحکام کے بعد ترقی کی سمت میں گامزن ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں افراط زر میں کمی کے ساتھ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ بیان کے مطابق، انھوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ پاکستان معاشی بحالی کے حصول کے بعد ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ کرسٹالینا جارجیوا نے ملک کے اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے وزیر اعظم کی قیادت اور ذاتی عزم کی بھی تعریف کی، جنھوں نے پاکستان کے معاشی استحکام اور ترقی کے حصول میں اہم کردار ادا کیا۔ ایم ڈی آئی ایم ایف نے طویل مدتی معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے مسلسل مالیاتی نظم و ضبط، ادارہ جاتی اصلاحات اور مؤثر گورننس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے پاکستان کے اصلاحاتی ایجنڈے کی حمایت کے لیے آئی ایم ایف کے عزم کا اعادہ کیا۔
ادھر، وفاقی وزیر خزانہ اور محصولات محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ایم ڈی آئی ایم ایف نے اعتراف کیا ہے کہ معیشت درست سمت میں گامزن ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایم ڈی آئی ایم ایف سے تعمیری اور مثبت میٹنگ ہوئی، پاکستان کی معاشی ترقی، جاری اصلاحات کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔ کرسٹالینا جارجیوا نے آئی ایم ایف پروگرام پر پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔ محمد اورنگزیب نے مزید کہا کہ حکومت کے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ سب کچھ خود کرے۔ حکومت غیرملکی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے طویل مدتی پالیسی فریم ورک یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت ایسی طویل مدتی پالیسیاں بنا رہی ہیں جن کے نتیجے میں معاشی استحکام آنے کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، معاشی اشاریوں میں بہتری یہ بتا رہی ہے کہ حکومت درست اقدامات کر رہی ہے۔ لیکن ہر معاملے میں آئی ایم ایف سے اجازت لینے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کو حکومت نہیں بلکہ آئی ایم ایف چلا رہا ہے۔ یہ تاثر ملک کے اندر اور باہر لوگوں کے پاکستان پر اعتماد کو بری طرح متاثر کرسکتا ہے۔ حکومت نے مشکل حالات سے نمٹنے کے لیے اگر آئی ایم ایف سے قرضہ لیا ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر قرضے کے بدلے میں ملک کی سالمیت اور خود مختاری آئی ایم ایف کے حوالے کر دی گئی ہے تو اسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ بیوروکریسی، تگڑے محکموں اور اداروں اور ارکانِ پارلیمان و حکومت پر خرچ ہونے والے بے تحاشا وسائل پر تو آئی ایم ایف کو کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوا تو پھر عام آدمی سے متعلقہ فیصلوں پر ہی اسے اعتراض کیوں ہوتا ہے، اس سوال کا جواب حکومت کو ضرور دینا چاہیے!
واپس کریں