بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں اور اقتصادی و معاشی پالیسی ساز اداروں نے پاکستان کی معیشت کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے اور اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے عالمی ساہوکار ادارے آئی ایم ایف پر ہی تکیہ کر رکھا ہے جس کے پاکستان کیلئے اب تک کے پروگراموں نے ہماری معیشت مستحکم نہیں ہونے دی اور اس پر دیوالیہ ہونے کی تلوار لٹکتی رہی ہے جبکہ آئی ایم ایف کی ہر شرط سر تسلیم خم کرکے قبول کرکے ملک کے عوام کو عملاً زندہ درگور کردیا گیا۔ ملک میں آئے روز مہنگائی کے سونامی بھی آئی ایم ایف کی شرائط قبول کرکے ہی اٹھائے جاتے رہے ہیں جبکہ حقیر سے قرض پروگرام کی خاطر ایٹمی قوت کے حامل اس ملک خداداد کو اپنی آزادی اور خودمختاری بھی عملاً آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنا پڑی۔ گزشتہ دو سال سے آئی ایم ایف نے پاکستان کے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کو پہلے قرض پروگرام کی بحالی اور پھر نئے قرض پروگرام کیلئے اپنی شرائط کے چھانٹے برسا کر جس طرح تگنی کا ناچ نچایا‘ وہ ہماری تاریخ کے المناک ابواب کا حصہ بن چکا ہے اور آئی ایم ایف کے نئے قرض پروگرام کے اجراء پر اطمینان کا اظہار کرنے والے ہمارے حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ بھی کہ قدرتی اور قومی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود توانائی کے ذخائر بڑھانے اور معیشت کو مستحکم بنانے کیلئے کوئی عملی اقدام اٹھانے کے بجائے عالمی ساہوکار ادارے آئی ایم ایف سے رجوع اور اس پر تکیہ کرلیا گیا چنانچہ قیام پاکستان کے بعد 1951ء سے آئی ایم ایف کے قرض کا شروع ہونیوالا سلسلہ آج ہماری معیشت کو مکمل طور پر جکڑ چکا ہے۔ ہماری مالی‘ اقتصادی پالیسیاں اور بجٹ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر ہی تیار ہوتا ہے حتیٰ کہ ملک کے سیاسی نظام اور انتظامی معاملات پر بھی ناروا طور پر آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جو درحقیقت پاکستان اور اسکی معیشت کو کمزور کرنے کا بیرونی ایجنڈا ہے جسے آئی ایم ایف کے ذریعے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بے شک قرض دہندہ کو اپنے قرض کی متعینہ سود سمیت واپسی سے سروکار ہوتا ہے جس کے سینے میں مقروض کے حالات کار کے حوالے سے کوئی درد نہیں ہوتا اور قرض کی واپسی کیلئے وہ مقروض کے جسم سے چیتھڑے تک اتار لینے کی کوشش کرتا ہے مگر اس سے یہ مراد نہیں کہ قرض کی معمولی یا بڑی رقم کی واپسی کی خاطر وہ کسی ملک کی پوری معیشت اور پوری قوم کو اپنی غلامی کے شکنجے میں کس لے اور اسکے پالیسی معاملات بھی اپنی مرضی کے مطابق چلانا شروع کر دے۔ پاکستان کے ساتھ تو آئی ایم ایف کا یہی طرز عمل چل رہا ہے اور وہ ایٹمی طاقت کے حامل ایک آزاد اور خودمختار ملک کو اپنی مرضی کیخلاف ہلنے تک نہیں دے رہا۔
اگر ہم آئی ایم ایف کے ساتھ صرف چھ سال کے معاملات کا جائزہ لیں تو سوائے ہزیمتوں کے ہمیں اپنے لئے کچھ بھی نظر نہیں آئیگا۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے ہر حکمران کی جانب سے کشکول اٹھا کر ایڑیاں رگڑتے ہوئے آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونا ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان اپنے اپوزیشن کے دور میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دینے کے نعرے لگاتے رہے مگر اقتدار میں آنے کے ایک ہفتے بعد ہی پی ٹی آئی کی حکومت کشکول اٹھائے آئی ایم ایف کے در پر پہنچ گئی اور اسکی تمام شرائط بھی من و عن قبول کرلیں۔ اس سے ہی ملک مہنگائی کے نئے سونامیوں کی زد میں آیا اور حکومت عوام کے غربت مہنگائی کے گھمبیر ہوتے مسائل سے بے نیاز نظر آنے لگی۔ پھر جب عمران خان کو عدم اعتماد کی تحریک کی بنیاد پر اپنے اقتدار کا خاتمہ یقینی نظر آنے لگا تو پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف کے قرض کی مقررہ میعاد میں واپسی معطل کر دی اور اسکے ساتھ معاہدے سے انحراف کی پالیسی اختیار کرلی۔ نتیجتاً آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر عملدرآمد ہی روک دیا اور معاہدے کی بحالی کیلئے مزید کڑی شرائط عائد کردیں۔ آنیوالی پی ڈی ایم کی حکومت اس معاہدے کی بحالی کیلئے آئی ایم ایف کی ہر شرط قبول کرنے پر مجبور ہوئی جس کے باعث عوام مہنگائی کے ہاتھوں عملاً راندہ درگاہ ہو گئے مگر آئی ایم ایف نے معاہدہ پھر بھی بحال نہ کیا اور حکومت کو نئی شرائط پر نیا عبوری معاہدہ کرنے پر مجبور کردیا۔ اس معاہدے کو نگران حکومت نے عوام کی جانب آنکھیں بند کرکے پایہ تکمیل کو پنچایا جس سے عام آدمی کا حشرنشر ہو گیا اور وہ آبرومندی کیساتھ سانس لینے کے بھی قابل نہ رہا۔
حد تو یہ ہے کہ موجودہ حکمران بھی جو درحقیقت پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت کا ہی تسلسل ہیں‘ نئے معاہدے کیلئے آئی ایم ایف کے در کی خاک چھانتے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ عبوری معاہدے کی مدت نگران دور حکومت میں ہی مکمل ہو گئی تھی جس کے بعد رواں سال مئی تک آئی ایم ایف کے ساتھ نیا معاہدہ ہونا تھا۔ مگر اس عالمی ساہوکار نے حکومت پاکستان سے اپنی ہر شرط پوری کرانے اور اسکے ہاتھوں عوام کو مہنگائی کے رگڑے لگوانے کے باوجود حکومت کو بدستور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا اورحکومت کی جانب سے ہر ماہ عوام کو فلاں تاریخ تک آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پانے کا چکمہ دیا جاتا رہا۔ حکومت اور آئی ایم ایف میں جاری اس آنکھ مچولی کے ساڑھے چار ماہ بعد گزشتہ روز آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ میں پاکستان کے قرض پروگرام کی منظوری دی گئی۔ یہ نیا قرض پروگرام سات ارب ڈالر کی قسط وار وصولی کا ہے جس کی خاطر عوام کو عملی طور پر زندہ رہنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا گیا اور اس وقت یوٹیلٹی بلوں کے علاوہ روزمرہ استعمال کی اشیاء کے نرخ بھی ساتویں آسمان کی خبر لے رہے ہیں۔ قرض پروگرام کی منظوری کے بعد حکومت کو اب بہرصورت عملیت پسندی کی طرف آنا اور عوام کے غربت مہنگائی کے مسائل کا ادراک کرتے ہوئے انہیں مہنگائی میں مستقل اور حقیقی ریلیف دینے کا اقدام اٹھانا چاہیے۔ کیونکہ عوام اب کسی حکومتی دعوے‘ ریلیف کے نعرے اور اس کیلئے محض زبانی جمع خرچ سے مطمئن نہیں ہونگے۔ اگر وزیراعظم کی بیان کی گئی خوش گمانی کے مطابق پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کا موجودہ قرض پروگرام آخری پروگرام ثابت ہوتا ہے تو ملک اور عوام کیلئے اس سے بڑی خوشخبری اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
بشکریہ۔نوائے وقت
واپس کریں