ڈاکٹر راسخ الكشميری۔آج کل فلم (دی گوٹ لائف) کا بہت زیادہ چرچا ہے، اس فلم میں ایک بھارتی نوجوان کی کہانی ہے جو بہتر روزگار کی تلاش میں سعودی عرب جاتا ہے۔ فلم میں اسے ایک غیر قانونی اور کٹھن زندگی جھیلنے والے شخص کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو سعودی صحراؤں میں بکریاں چراتا ہے اور مسلسل مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔
فلم میں آدھی کہانی سنائی گئی ہے۔ یہ نہیں بتایا گا کہ اسی بھارتی نوجوان نے اس پر ظلم کرنے والے شخص کو قتل کردیا تھا، اور پھر بھاگ کر جب شہر پہنچا تو قتل کے جرم میں اسے گرفتار کیا گیا۔ بعد میں سعودی معاشرے کے کچھ افراد نے مقتول کی اولاد کو ماجرا سنایا، اور پھر بات معافی تلافی تک جا پہنچی، اس سے مستزاد یہ کہ بھارتی نوجوان کے لیے رقم کا بندوبست کرکے اسے واپس بھارت بھیجا گیا۔
یہ سعودی معاشرے کی وہ اچھائی تھی جو فلم میں ظاہر نہیں کی گئی، بلکہ محض ظلم کی کہانی بیان کرکے اسے پورے معاشرے پر تھوپ دیا گیا۔ اس فلم سے جو چیز واضح ہوتی ہے، وہ یہ کہ اس فلم کا مقصد سعودی عرب کو ٹارگٹ کرنا تھا۔
یہ پہلی فلم نہیں جس میں سعودی عرب کو نشانہ بنایا گیا ہو، اس سے قبل بہت ساری مشرقی ومغربی فلمیں آچکی ہیں، اور مزید آنے کو ہیں، یہ غالباً سیاسی اختلافات کی نشاندہی ہے، جہاں کچھ طاقتیں اپنی باتیں منوانے سے عاجز ہو کر کسی ملک کو ٹارگٹ کرتی ہیں۔ اس طرح کے منظر نامے سے پاکستان بھی کئی دفعہ گزر چکا ہے۔
یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بھارت کی پہلی فلم ہے جو مسلمانوں یا عربوں کو منفی انداز میں پیش کرتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ یہ واضح کیا جائے کہ کس طرح سنیما مخصوص ممالک اور اقوام کی شبیہ کو بگاڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
کشمیر لیگل فورم (LFK) کی 2024 کی رپورٹ اس بات کی ایک واضح مثال پیش کرتی ہے کہ کس طرح بالی ووڈ ہندوستانی قوم پرست بیانیے کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان، مسلمانوں اور کشمیریوں کی شبیہ خراب کرنے کے لیے کام کرتا ہے، جو بڑی حد تک فلم (دی گوٹ لائف) کے سعودی عرب کے خلاف استعمال کیے گئے طریقوں سے مماثلت رکھتا ہے۔
کشمیر لیگل فورم کی رپورٹ میں بالی ووڈ اور کشمیر کے پیچیدہ تعلقات پر تفصیلی تحقیق پیش کی گئی ہے، جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہندو قوم پرستی اور اسلامو فوبیا نے کشمیری مسلمانوں کی فلموں میں عکاسی پر کس طرح اثر ڈالا ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بالی ووڈ نے کس طرح برسوں سے بھارتی سرکاری بیانیے کو فروغ دیا اور کشمیر کے سیاسی وسماجی حقائق کو نظر انداز کیا۔
ہندوستانی سنیما کا آغاز بیسویں صدی کے اوائل میں مذہبی اور ہندو دیومالائی فلموں کے ساتھ ہوا، جیسے راجہ ہریش چندر (1913) جو پہلی ہندوستانی فلم مانی جاتی ہے، ان فلموں نے ہندوستانی سنیما میں ہندو ثقافت کی بالادستی کو قائم کیا۔
1947 میں ہندوستان کی آزادی کے بعد، بالی ووڈ ہندو عقائد کو منتقل کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن گیا، مسلمانوں کو اکثر معمولی یا منفی کرداروں میں دکھایا گیا، جس سے ان کی منفی تصویر کو تقویت ملی۔
تقسیم کے بعد بالی ووڈ نے مسلمانوں کو ہندوستان کی وحدت کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کرنا شروع کیا، خاص طور پر ان فلموں میں جو ہندو انتہا پسندی پر مبنی تھیں۔ اگرچہ سنیما میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بطور پروڈیوسرز، ہدایت کار، اور اداکار موجود ہے، لیکن فلموں میں ان کی عکاسی محدود رہی ہے اور انہیں زیادہ تر ایسی حالت میں دکھایا جاتا ہے جو ہندو بالادستی کے تحت ہوتی ہے۔
بالی ووڈ میں کشمیر کو ہمیشہ ایک مقدس زمین کے طور پر دکھایا گیا، خاص طور پر اس کے قدرتی حسن کے سبب، جسے ہندو کتابوں میں روحانی مقام کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد، بھارتی ریاست نے ان تصورات کو قومی بیانیے میں شامل کر لیا۔
ایسی کئی فلمیں جیسے برسات (1949)، کشمیر کی کلی (1964)، اور ہینا (1991) نے کشمیر کے حسن کو رومانوی کہانیوں کے لیے پس منظر کے طور پر استعمال کیا، جس سے یہ علاقہ ہندوستانی عوام کی نظر میں خوبصورتی کی علامت بن گیا، جبکہ کشمیری مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا۔
1990 کے بعد کشمیر میں مسلح جدوجہد کے آغاز کے بعد، بالی ووڈ میں مسلمانوں کی عکاسی تبدیل ہونے لگی۔ روجا (1992) اور مشن کشمیر (2000) جیسی فلموں نے کشمیری مسلمانوں کی شناخت کو بھارتی قوم پرستی کے تناظر میں پیش کیا، جہاں مسلمانوں کو دہشت گرد یا انتہا پسند کے طور پر دکھایا گیا۔
گزشتہ دہائی میں، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے تحت اسلاموفوبیا بالی ووڈ میں مزید نمایاں ہو گیا ہے۔ دی کشمیر فائل (2022)، شکارا (2020)، اور آرٹیکل 370 (2024) جیسی فلموں میں کشمیری مسلمانوں کی منفی عکاسی کی گئی اور بھارتی فوجی قبضے کی حقیقت کو نظر انداز کیا گیا۔
سو اس سے معلو ہوا کہ (دی گوٹ لائف) فلم بالی ووڈ کے ہندوتوا عقیدہ نشر کرنے کا ایک تسلسل ہے، جس میں اب عربوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے، اور یہ فلم، پہلی فلم نہیں جس میں عربوں کو کم تر دکھایا گیا ہو، بہت ساری ایسی بھارتی فلمیں ہیں جن میں ہندوؤں کو سپرمیسی جبکہ عربوں کو ثانویت دی گئی، اور یہ ہو بہو وہ طریقہ ہے جو بالی ووڈ پاکستان کے خلاف بھی استعمال کرتا آرہا ہے۔
واپس کریں