پاکستان کا غیر نمائندہ طرزِ حکومت اور مفاداتی قلابازیاں۔محمد عباس شاد
مقروض ملک کی دولت سے ’’برادر اسلامی ملک‘‘ میں گیارہ ارب ڈالر سے زائد کی جائیدادیں خریدنے والے اس ملک کے مالک ہیں یا ہم عوام۔
پاکستان میں اس وقت جو نظامِ حکومت و سیاست عوام پر مسلط ہے، اس کا نہ کوئی قبلہ ہے اور نہ ہی وہ کسی اُصول کا پابند ہے۔ یہ ملک اپنی معاشی لاچاری کے سبب ایک طرف تو عالمی مالیاتی اداروں سے بیل آؤٹ پیکج کے لیے منتیں اور ترلے کرتا پھررہاہے اور دوسری طرف اس ملک کے نظام میں شریک سرمایہ داروں کا ایک گروہ ایک ’’برادر اسلامی ملک‘‘ میں گیارہ ارب ڈالر سے زائد کی جائیدادیں خریدتے پھر رہے ہیں۔
اس ملک پر کلی اختیار کی حامل اسٹیبلشمنٹ‘ نظام پر اپنی گرفت کو مضبوط رکھنے کے لیے معروف جمہوری پراسیس میں نقب لگا کر نگران سیٹ اپ میں اپنی خدمت پر مامور شخصیات سمیت اپنے لوگوں کو مخصوص نشستوں اور سینٹ کے راستے سے بلا مقابلہ منتخب کرواکے نظام میں داخل کرتی ہے اور ہماری نام نہاد سیاسی جماعتیں‘ ان نامزد افراد کو اپنے صوبائی و قومی ممبرانِ پارلیمنٹ کی حمایت کا پروانہ جاری کرتے ہوئے انھیں اعلیٰ ایوانوں میں پہنچا کر اہم وزارتوں کے قلم دان پیش کردیتی ہیں۔ اسی طرح موجودہ نظامِ حکومت میں صدارت سے لے کر وزارتِ عظمیٰ تک سارے اعلیٰ عہدے شطرنج کی بساط کے مہروں کی طرح ثبت کر دیے جاتے ہیں۔ یہ دنیا کے کون سے جمہوری نظام کی قسم ہے، جس میں آپ عوام سے ووٹ لینے کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور پھر نتائج بدل کر جمہوریت کے نام پر اپنی مرضی کا ایک نظامِ حکومت کھڑا کرلیتے ہیں۔ یہ سب کچھ عوام کے سامنے کھلی آنکھوں ہورہا ہوتا ہے۔ گویا اس نظام میں عوام کی حیثیت بالادست طبقات کے قائم کردہ نظام کے بت کے سامنے سجدۂ غلامی بجا لانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اس ملک میں پائی جانے والی سیاسی جماعتوں کے نام سے موسوم مخلوق کی اکثریت کلی طور پراس مفاداتی اُصول کی پابند نظر آتی ہے کہ اقتدار کے حصول کے لیے جھوٹ، خوشامد اور چاپلوسی کی جو بھی حد قائم کی جائے، اسے چومتے ہوئے سینے سے لگاکراپنے اقتدار کا راستہ ہموار کر لیا جائے۔ موجودہ حکومت کی ساخت میں ایسے عناصر کی شمولیت اسی اَخلاقی پستی کا عملی ثبوت ہے۔ اس ملک کے نظام پر قابض طبقوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ وہ بجلی کی قیمتوں کو آئی پی پیز کے ظالمانہ نرغے میں دے کر غریب عوام کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ وہ گندم جیسے سکینڈل کے ذریعے اپنی تجوریوں کو بھرنے کے لیے ملک کے کسانوں کی اکثریت کو زندہ درگور کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ عوام کی داد رسی کا ہر فورم اب عوام کے بجائے نظام کے محافظ طبقوں کا باڈی گارڈ بنا ہوا ہے، بلکہ عوام کو انصاف دینے والے جج خود اپنے بارے میں انصاف لینے کے لیے در بہ در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔
یہاں کی سیاسی اَشرافیہ اپنے ملک کے اندر سے ناجائز ذرائع سے لوٹی ہوئی دولت سے دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنے عشرت کدے تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔ اب ان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں رہا، بلکہ وہ کرپٹ نظام کی قوتوں کے ساتھ مل کر عوامی مفادات کے خلاف ہر سطح پر جانے کو تیار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں بجلی کے ظالمانہ بلز اور ٹیکسز کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک کسی بھی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم کے بغیر تھی۔ کیوں کہ ان عوام دشمن اقدامات پر سیاسی جماعتیں عوام کے بجائے ظالم نظام کے ساتھ کھڑی ہیں اور عوام ان جماعتوں کو ان کے اس کردار کی وجہ سے ردّ کرچکے ہیں۔
عام تأثر یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے لیڈر مفاہمت کے نام پر نظام کی طاقت سے سازباز کرکے اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کرتے ہیں اور نظام سے اپنا حصہ وصول کرکے لمبی تان کر سوجاتے ہیں۔ عوام کے دُکھ درد اور تکلیف سے انھیں کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ہمیں تاریخ یہی بتاتی ہے کہ در اصل سیاسی قیادت کی غفلت ہی انقلابات کا راستہ ہموار کیا کرتی ہے۔
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم موقع کی مناسبت سے ایسے مفاد پرست سیاست دانوں اور عیاش حکمرانوں سے متعلق امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے چند انقلابی افکار کا خلاصہ اور مفہوم درج کریں، تاکہ موجودہ صورتِ حال میں ہماری نوجوان نسل اس خطے کے عظیم سماجی مفکر کے فکر کی طرف متوجہ ہوسکے۔ امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ حکیم الہند امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے انقلابی افکار کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’امام دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’یہ لوگ ہر وقت موقع کی تاک اور گھات میں رہتے ہیں اور جہاں اور جب موقع ملے، دوسروں کا مال لوٹ کھسوٹ لیتے ہیں۔ ان کی اس چھین جھپٹ اور ڈاکوپن کے پسِ پشت حکومت پر قابض ہو کر اپنے ناجائز حوصلوں کی تکمیل کا مذموم جذبہ کار فرما ہوتاہے۔ ایسے بدنیت لوگ ہر قسم کے شر پسند عناصر کو تکمیلِ مقاصد کے لیے اپنا شریکِ کار بنا لیتے ہیں۔ ایک بہترین سیاسی نظام کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت ایسے فتنہ ساماں شرانگیز عناصر کے خلاف جہاد کے لیے کمر بستہ رہے۔
وہ افراد جن کے ہاتھ میں رہنمائی اور معاشرے کی باگ ڈور ہوتی ہے، یہ اجتماعی مفاد کو پسِ پشت ڈال کر اپنی حیوانی اَغراض کی تکمیل میں ہمہ تن منہمک اور غرق ہو جاتے ہیں۔
ان حکمرانوں کی عیش پرستی اور آرام کے نت نئے سامان افراطِ زرکا نتیجہ بنتے ہیں۔ جب سربراہِ مملکت عیش میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو ان کی بے راہ روی کے مہلک نتائج غریب عوام کو مہنگائی کی صورت میں بھگتنے پڑتے ہیں۔
حکمران عیاشی کے سامان کے حصول کے لیے مزدور، کسان، تاجر اور صنعت کاروں پر بھاری ٹیکس لگاتے ہیں، جن کی ادائیگی کے لیے وہ جانوروں کی طرح دن رات کام کرتے ہیں۔ اتنی مشقت کے بعد بھلا ان کے پاس اتنی مہلت کہاں ہوتی ہے کہ وہ خدا، یا آخرت کو یاد کر سکیں۔ بھوکا اور ننگا انسان نہ اپنی زندگی سنوار سکتا ہے اور نہ آخرت۔ (شعوروآگہی، ارتفاقِ چہارم)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے مندرجہ بالا اَفکار کی روشنی میں پاکستان کے مجموعی حالات، سیاسی جماعتوں کے نام پر مفاد پرست لیڈروں اور بے رحم حکمرانوں کے لاگو کردہ ٹیکسز کا جائزہ لینا ازبس ہے۔ ان حالات کے بعد کسی بھی معاشرے میں ایک مکمل سماجی تبدیلی کیوں ناگزیر ہوجاتی ہے؟ اس کے لیے امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے اَفکار و نظریات اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی تصانیف لائقِ مطالعہ ہیں۔
(ماخذ : شذرات: ماہنامہ رحیمیہ، لاہور، شمارہ جون 2024ء)
بشکریہ:محمد عدنان القريشي
واپس کریں