احتشام الحق شامی۔جب بھارت نے جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا تو بہت سے اہم مسلم ممالک،بھارتی خارجہ پالیسی میں شامل اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کی وجہ سے خاموش رہے۔ مثال کے طور پر چند ایک بڑے مسلم ممالک یہ ہیں۔
متحدہ عرب امارات۔ ہندوستان کا مشرق وسطیٰ کا اہم تجارتی پارٹنر، پٹرولیم مصنوعات، قیمتی دھاتوں، ہیروں، مشینری، ٹیکسٹائل اور زرعی اشیاء میں دو طرفہ تجارت کے ساتھ۔
سعودی عرب۔ ہندوستان کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات، بنیادی طور پر تیل، بلکہ ٹیکسٹائل، کیمیکل، پلاسٹک اور کھاد میں بھی۔
ایران۔ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ہندوستان کے ساتھ تجارت جاری رکھے ہوئے ہے، خاص طور پر تیل، چاول، چائے اور دواسازی میں۔
انڈونیشیا۔ دو طرفہ تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کے ساتھ ٹیکسٹائل، کوئلہ، پام آئل، ربڑ اور دیگر اشیاء کی تجارت۔
واضع رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارت نے جموں و کشمیر کے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کر دیا تھا۔ آرٹیکل 370 نے جموں و کشمیر کو خصوصی خود مختاری دی، جس میں اس کا اپنا آئین اور جھنڈا بھی شامل ہے، جس میں صرف دفاع، خارجہ امور، اور مواصلات مرکزی کنٹرول میں ہیں۔
آرٹیکل 370 غیر مقامی لوگوں کو علاقے میں زمین یا مستقل رہائش حاصل کرنے سے روکتا ہے۔ اس تنسیخ کو کچھ لوگوں نے فتح کے طور پر منایا لیکن اندرونی اور بیرونی طور پر تنقید کی۔ تاہم، دنیا کی خاموشی، بھارت کی مضبوط معیشت، فعال تارکین وطن اور موثر سفارت کاری سے متاثر ہونے کی وجہ سے تنقید اتنی وسیع نہیں تھی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔
مذکورہ بڑے مسلم ممالک کی طرح آج کی دنیا میں کسی بھی ملک کے لیئے سب سے اہم اس کے معاشی و سیاسی مفادات ہیں کیونکہ اسی میں ان ممالک کی سلامتی اور بقاء ہے اور کوئی ملک بھی اپنی سلامتی و بقاء کو کیوں خطرے میں ڈالے گا؟ اب آپ یا میں، اس بقاء و سلامتی کو منافقت کہیں یا کچھ اور نام دیں،اس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔
یہی تلخ حقائق ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا اب ہم بھی وہی کچھ آذاد کشمیر میں کرنے جا رہے ہیں جو بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کیا ہے؟
واپس کریں