دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سات مئی کی بھارتی جارحیت اور آبی دہشت گردی پر اقوام متحدہ کی چشم کشا رپورٹ
No image اقوامِ متحدہ کے خصوصی ماہرین نے رواں سال مئی میں ہونے والی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے بھارت کے حملے کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ اس سلسلہ میں ماہرین کی تیار کردہ جو رپورٹ جاری کی گئی ہے اس میں بھارت کے یکطرفہ اقدامات پر سخت اعتراضات عاید کئے گئے ہیں۔ رپورٹ میں پہلگام حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان نے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی اور غیرجانبدار و شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ کشیدگی اور سات سے دس مئی تک کی بھارتی جارحیت کے حوالے سے جاری کی گئی اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں پہلگام حملے کے بعد بھارت کے فوجی ردعمل اور سندھ طاس معاہدے کو معطل رکھنے کے بھارتی فیصلے کا مفصل جائزہ لیا گیا اور کہا گیا ہے کہ بھارت پہلگام حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کر سکا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سات مئی کو بھارت نے پاکستان کی حدود میں فوجی طاقت کا استعمال کیا جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ بھارت نے اس فوجی کارروائی سے قبل سلامتی کونسل کو باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا جبکہ بھارتی حملوں کے دوران آبادی والے علاقوں کو نشانہ بنایا گیا جن سے مساجد متاثر ہوئیں اور متعدد شہری شہید اور زخمی ہوئے۔ سات مئی کو پاکستان نے بھارتی کارروائی کی مذمت کی اور سلامتی کونسل کو مطلع کیا کہ وہ یو این چارٹر کے تحت اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی اقدامات پاکستان کی خود مختاری کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ رپورٹ میں سندھ طاس معاہدے سے متعلق بھی اہم نکات اٹھائے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ بھارت ثالثی کے عمل میں شرکت سے گریز کر رہا ہے اور سندھ طاس معاہدے کے دائرہ کار کو چیلنج کر رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے پانی روکنا یا معاہدہ معطل کرنا غیر مناسب رویہ ہے۔ پانی روکنے سے پاکستان کے عوام براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں بھارت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے پر نیک نیتی سے عمل کرے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے سمیت اقوام متحدہ کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔
دریں اثناء صدر مملکت آصف علی زرداری نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو پاکستان کے موقف کی تائید کے مترادف قرار دیا ہے اور بھارتی اقدامات پر علاقائی سلامتی کے حوالے سے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ محمد اسحاق ڈار نے بھارت کے جارحانہ آبی اقدامات کو امن و سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔ ان کے بقول ان بھارتی اقدامات سے ہماری غذائی سلامتی اور علاقائی امن و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
اس وقت جبکہ برصغیر جنوبی ایشیا پہلے ہی عدم استحکام، عسکری کشیدگی اور سیاسی تنازعات کی زد میں ہے، بھارت کی جانب سے مئی کے مہینے میں اختیار کیا گیا جارحانہ طرزِ عمل نہ صرف علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے بلکہ عالمی ضمیر کے لیے بھی ایک کڑا امتحان ہے۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے بھارتی اقدامات پر جو سوالات اٹھائے ہیں، وہ پاکستان کے اس دیرینہ مؤقف کی واضح تائید کرتے ہیں کہ بھارت دانستہ طور پر سندھ طاس معاہدے جیسے بین الاقوامی آبی معاہدے کو سیاسی اور عسکری مقاصد کے لیے یرغمال بنا رہا ہے۔
1960ء میں عالمی بینک کی ضمانت کے ساتھ طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کا ایک مستند، قابلِ عمل اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فریم ورک ہے۔ اس معاہدے کے تحت مغربی دریا، سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے لیے مخصوص ہیں، جبکہ بھارت کو مشرقی دریاؤں پر محدود حقِ استعمال دیا گیا۔ پاکستان نے گزشتہ چھ دہائیوں میں اس معاہدے کی نہ صرف پاسداری کی بلکہ ہر عالمی فورم پر اس کے تقدس کا دفاع بھی کیا۔ اس کے برعکس بھارت نے بارہا یکطرفہ اقدامات کے ذریعے اس معاہدے کی روح کو مجروح کیا۔
مئی میں بھارت کی جانب سے کی جانے والی عسکری اور آبی جارحیت اس سلسلے کی تازہ اور خطرناک کڑی ہے۔ چناب کے بعد دریائے جہلم کے پانی کو روکنا محض ایک تکنیکی یا انتظامی معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک کھلی آبی جارحیت ہے، جو کروڑوں پاکستانیوں کے حقِ زندگی پر حملے کے مترادف ہے۔ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے۔
بھارت کی یہ کوشش کہ مبینہ سرحد پار دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات کو سندھ طاس معاہدے سے جوڑا جائے، قانونی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی ناقابلِ قبول ہے۔ آبی معاہدات کو سیاسی یا عسکری تنازعات سے الگ رکھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جنگوں کے باوجود سندھ طاس معاہدہ ماضی میں قائم رہا۔ بھارت اگر آج اس معاہدے کو معطل یا غیر مؤثر بنانے کی کوشش کر رہا ہے تو درحقیقت وہ عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کی ایک خطرناک مثال قائم کر رہا ہے۔
7 مئی کو بھارت کی جانب سے کیا گیا اقدام مسلح حملے کے زمرے میں آتا ہے جیسا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے چنانچہ بین الاقوامی قانون کے تحت پاکستان کو مکمل حق حاصل ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع میں اقدامات اٹھائے۔ پاکستان نے اب تک انتہائی ضبط، تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن اس تحمل کو کمزوری سمجھنا بھارت کی سنگین غلط فہمی ہوگی۔
صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے بھارتی اقدامات پر اظہارِ تشویش اور نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا یہ واضح پیغام کہ بھارتی آبی جارحیت خطے کے امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے، دراصل ریاستِ پاکستان کے متفقہ قومی مؤقف کی ترجمانی ہے۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے امن، عالمی ماحولیاتی توازن اور بین الاقوامی قوانین کے احترام کا سوال ہے۔
پانی کی قلت پہلے ہی دنیا کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی ریاست دانستہ طور پر دوسرے ملک کا پانی روکنے لگے تو یہ عمل مستقبل میں کسی بڑے تصادم بلکہ عالمی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں درست نشاندہی کی گئی ہے کہ اس نوعیت کی آبی جارحیت علاقائی تنازعہ کو عالمی بحران میں تبدیل کر سکتی ہے۔
بدقسمتی سے عالمی برادری، خصوصاً مغربی طاقتیں، بھارت کے معاملے میں دہرے معیار کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ انسانی حقوق ہوں یا بین الاقوامی معاہدات، بھارت کو اکثر رعایت دی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ محض بیانات تک محدود نہ رہے بلکہ بھارت کے جارحانہ عزائم کے سدباب کے لیے مؤثر اور فوری اقدامات اٹھائے جن میں عالمی پابندیاں بھی شامل ہونی چاہئیں۔
پاکستان امن کا خواہاں ہے، لیکن امن کی خواہش کو قومی سلامتی، خودمختاری اور عوام کے بنیادی حقِ آب پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ اگر بھارت نے اپنی آبی جارحیت بند نہ کی تو یہ خطے کو ایک ایسے تصادم کی طرف دھکیل سکتا ہے جس کے نتائج کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔
سندھ طاس معاہدہ صرف ایک معاہدہ نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں بقا اور امن کی ضمانت ہے۔ اس سے چھیڑ چھاڑ دراصل پورے عالمی نظامِ اعتماد کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر آج بھارت کو نہ روکا گیا تو کل دنیا کے دیگر آبی معاہدات بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
اس تناظر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بھارت کی حالیہ پالیسی نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ خود بھارت کے طویل المدتی مفادات کے بھی منافی ہے۔ پاکستان اپنے حقِ آب، خودمختاری اور علاقائی امن کے تحفظ کے لیے ہر سطح پر آواز بلند کرتا رہے گا، اور عالمی برادری کو بھی بھارت کے جنونی توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا بصورت دیگر بھارتی جارحانہ عزائم سے دنیا کی تباہی بعید از قیاس نہیں۔ پاکستان بہرحال اپنی سلامتی و خود مختاری کے تحفظ کے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے کا حق رکھتا ہے جو یو این چارٹر کی روشنی میں اس کا تسلیم شدہ حق ہے۔
واپس کریں