دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تحریکِ آزادی کشمیر کا فکری و سیاسی معمار،رئیس الاحرار، قائد ملت چوہدری غلام عباسؒ
نجیب الغفور خان
نجیب الغفور خان
تحریکِ آزادی جموں و کشمیر کی تاریخ رئیس الاحرار، قائد ملت چوہدری غلام عباسؒ کے ذکر کے بغیر ادھوری اور نامکمل ہے۔ وہ ان شخصیات میں شمار ہوتے ہیں جن کی سیاسی بصیرت، اصول پسندی اور بے لوث جدوجہد نے کشمیری مسلمانوں کو غلامی کے اندھیروں سے نکال کر آزادی کے شعور سے آشنا کیا۔ چوہدری غلام عباسؒ محض ایک سیاسی رہنما نہیں تھے بلکہ بانی? پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے قریبی رفیق، دو قومی نظریے کے سچے علمبردار، الحاقِ پاکستان کے مضبوط داعی اور کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے نڈر محافظ تھے۔ ان کی قیادت نے کشمیری قوم کو ایک واضح سیاسی سمت اور منظم پلیٹ فارم فراہم کیا جس کے ذریعے ڈوگرہ راج کے خلاف منظم جدوجہد ممکن ہوئی۔قائد ملت چوہدری غلام عباسؒ 4 فروری 1904ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پرنس آف ویلز کالج جموں سے بی اے کیا اور بعد ازاں یونیورسٹی لاء کالج لاہور سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے اپنی صلاحیتوں اور علم کو ذاتی مفاد کے بجائے کشمیری مسلمانوں کے حقوق کی جدوجہد کے لیے وقف کر دیا۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے انہیں بارہا قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ 1930ء میں قرآنِ حکیم کی توہین کے خلاف احتجاج کے دوران پہلی مرتبہ گرفتار ہوئے، اس وقت وہ ایل ایل بی کا امتحان دے رہے تھے۔ 1934ء میں دوبارہ گرفتاری عمل میں آئی، مگر ظلم و جبر ان کے عزم کو متزلزل نہ کر سکا۔ابتدائی سیاسی زندگی میں انہوں نے ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن میں شمولیت اختیار کی اور بعد ازاں اس کے صدر منتخب ہوئے۔ اس تنظیم نے کشمیری مسلمانوں میں سیاسی بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 12 اکتوبر 1932ء کو مسلم کانفرنس کے قیام میں چوہدری غلام عباسؒ نے کلیدی کردار ادا کیا اور اس کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ مسلم کانفرنس کشمیری مسلمانوں کی پہلی منظم سیاسی جماعت تھی جس نے ان کے حقوق کے تحفظ اور آزادی کی جدوجہد کو عملی شکل دی۔
1934ء میں مسلم کانفرنس کے صدر شیخ محمد عبداللہ نے چوہدری غلام عباسؒ کو ڈوگرہ حکومت سے مذاکرات کا مکمل اختیار دیا۔ اسی دور میں برطانوی حکمرانوں کی جانب سے قائم کردہ گلیسنی کمیشن کے سامنے انہوں نے کشمیری مسلمانوں کے مطالبات مؤثر انداز میں پیش کیے۔ مسلم کانفرنس کی کوششوں کے نتیجے میں ریاست میں نیشنل اسمبلی قائم ہوئی، اگرچہ اس میں مسلمانوں کو نہایت محدود نمائندگی دی گئی۔ 1935ء میں بحیثیت صدر مسلم کانفرنس انہوں نے ریاست کے دور دراز علاقوں کا دورہ کر کے مسلمانوں کو تحریکِ آزادی میں شامل کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔
1938ء اور 1939ء کے دوران کشمیری قیادت نظریاتی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ مسلم کانفرنس کا نام نیشنل کانفرنس رکھنے کے فیصلے کی چوہدری غلام عباسؒ نے سخت مخالفت کی، جس کے بعد ان کے اور شیخ محمد عبداللہ کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ 1939ء کو تاریخِ کشمیر کا سیاہ سال قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اسی سال کشمیری قیادت اور قوم میں گہری نظریاتی تقسیم پیدا ہوئی۔ اس دور میں جب متحدہ ہندوستان میں کانگریس اور مسلم لیگ آمنے سامنے تھیں اور تحریکِ پاکستان فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی، چوہدری غلام عباسؒ نے مسلم لیگ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔
1940ء میں پنڈت جواہرلال نہرو شیخ محمد عبداللہ کی دعوت پر سرینگر آئے، تاہم چوہدری غلام عباسؒ نے ان سے ملاقات کرنا مناسب نہ سمجھا۔ حالات کے بغور جائزے کے بعد اپریل 1942ء میں انہوں نے مسلم کانفرنس کا دوبارہ احیاء کیا اور اس بار مسلم لیگ سے باضابطہ سیاسی وابستگی اختیار کی۔ اسی سال مسلم کانفرنس کے اجلاس میں تحریکِ پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا گیا۔قائداعظم محمد علی جناحؒ کو قائد ملت سے گہری عقیدت تھی اور یہ ان کے مقام کا اعتراف تھا کہ قائداعظمؒ نے خود ان کے دروازے پر جا کر ان کا استقبال کیا۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ کے ساتھ بھی ان کے تعلقات احترام اور اعتماد پر مبنی تھے۔ چوہدری غلام عباسؒ مسلم لیگ کے اولین اور مخلص سپاہیوں میں شمار ہوتے تھے اور کشمیر میں مسلم لیگ کے طرز پر سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ کر انہوں نے کشمیری مسلمانوں کو ایک مضبوط سیاسی شناخت دی۔فروری 1948ء میں وہ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے اور یکم دسمبر 1951ء تک حکومتِ آزاد کشمیر کے سربراہ رہے۔ بعد ازاں کچھ عرصے کے لیے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی، تاہم 1954ء میں دوبارہ عملی سیاست میں متحرک ہو گئے۔ جون 1958ء میں جنگ بندی لائن توڑنے کی تحریک کے آغاز پر انہیں گرفتار کیا گیا، بعد ازاں صدر ایوب خان کے دور میں رہائی ملی۔ وہ آخری سانس تک کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔
چودھری غلام عباسؒ 18 دسمبر 1967ء کو 63 برس کی عمر میں معدے کے سرطان کے باعث وفات پا گئے۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں پاکستان کی سرزمین میں دفن کیا جائے، جو پاکستان سے ان کی بے مثال محبت کا مظہر ہے۔ پاکستان پوسٹل سروس نے 1995ء میں تحریکِ آزادی کشمیر میں ان کی خدمات کے اعتراف میں یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے۔ ہر سال ان کی برسی کے موقع پر فیض آباد میں ان کے مزار پر قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں سیاسی قیادت اور سرکاری نمائندگان شرکت کرتے ہیں، جبکہ جموں و کشمیر لبریشن سیل کے سوشل میڈیا ونگ کی جانب سے خصوصی مہم کے ذریعے ان کی جدوجہد کو نئی نسل تک پہنچایا جاتا ہے۔آج ان کی برسی کے موقع پر کشمیری عوام اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ جدوجہدِ آزادی کشمیر اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کشمیری عوام اپنے حقِ خودارادیت کی منزل حاصل نہیں کر لیتے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک دراصل رئیس الاحرار چوہدری غلام عباسؒ کے اس ادھورے مشن کی تکمیل ہے جس کے لیے انہوں نے اپنی پوری زندگی وقف کر دی تھی۔
واپس کریں