دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
غیبی انصاف کی اسکیم اور بندفائل۔فرنود عالم
No image سال ہے 2022 کا،تاریخ ہے 10 جون کی اور وقت ہے دوپہر کا۔ اسلام آباد کے شالیمار تھانے میں ایک ایف آئیر درج ہوئی۔ عامرشاہ کا بیٹا دو دن سے غائب ہے۔ پولیس افسر نے تفتیش شروع کردی۔ معلوم ہوا بیٹے کو ایک خاتون نے پک کیا تھا۔ بیٹے کے فون پر آنے والی آخری کال کاریکارڈ نکالا۔ نمبر کسی خاتون کا نکلا۔ خاتون کے نمبرپر دو اور نمبروں کو افسر نے مشکوک قرار دیدیا۔ایک صوابی سےتھادوسرالاہور سے۔ دونوں نمبر بند تھے۔ دونوں کے والدین سے رابطہ کیا گیا۔ایک جیسا جواب ملا۔ بیٹاجیل میں ہے۔ افسر نے ایف آئی آر نکلوائی۔ مقدمہ گستاخی کانکلا۔ ایف آئی آرمیں ایک تیسرے لڑکے کا نام دیکھ کرافسر سٹپٹا گیا۔ یہ عبداللہ شاہ نامی اسی نوجوان کا نام تھا جسکی تلاش میں افسر نکلا ہوا تھا۔
افسرنےلاہور اور صوابی والے لڑکوں کا جیل میں انٹرویو کیا۔دونوں ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے، مگردونوں کی کہانی ایک جیسی نکلی۔ لڑکی نے تعلق بنایا۔ بیرون ملک بھیجنے کا جھانسہ دیا۔ وٹس ایپ گروپ میں یہ کہہ کر ایڈ کیا کہ کنسلٹنٹس رہنمائی کریں گے۔
گروپ گستاخانہ مواد سے بھرا ہوا تھا۔ گروپ کا ایڈمن بنا دیا گیا۔ ایڈمن بنانے والے نے خود گروپ چھوڑ دیا۔سکرین شاٹس لے لیے گئے۔ نوکری کے معاملات کو آگے بڑھانے کیلیے ایک جگہ بلایا۔ پہنچے تو خاتون نے پک کیا۔ ایک گھر میں لے گئی۔ یہ پرائیویٹ ٹار چرسیل تھا۔کچھ لوگ موجود تھے۔ فون قبضے میں لیکر لڑکی کی چیٹ ڈیلیٹ کردی۔ وڈیوزبنائیں۔ مارا پیٹادھمکیاں دیں۔کاغذ پر دستخط کروائے۔ایف آئی اے سائبرکرائم سیل کے اہلکار آگئے۔ہمیں انکے حوالے کردیا گیا۔
یہ سب سن کر افسر نے سوچا،عبداللہ کوبھی توخاتون نے ہی پک کیاتھا۔ اسے بھی ان مرحلوں سے گزاراجارہاہوگا۔آتا ہی ہوگا۔مگرعبداللہ نہیں آیا۔شالیمار پولیس سٹیشن میں ایک کال آگئی۔ یہاں بنی گالا کے پاس جنگل سے ایک سربریدہ اور ناقابل شناخت لاش ملی ہے۔ ڈی این اے عبداللہ شاہ کی والدہ سے میچ کرگیا۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔
قتل کی تحقیقات شروع ہوگئیں۔سی ڈی آر، ایف آئی آر،کال ہسٹری اوردیگر بہت سے اشارے ایک وکیل کی طرف جا رہے تھے۔ افسر نے وکیل کو عبداللہ کے قتل میں نامزد کردیا۔ ابھی تحقیقات جاری تھیں کہ عبداللہ کے والد عامر شاہ پر گستاخی کا پرچہ ہوگیا۔عامر شاہ نے اگلے دن تھانے میں پہنچ کر بیان دیدیا کہ میں اس وکیل کو بے قصور سمجھتا ہوں۔بیان ریکارڈ ہوتے ہی عامر شاہ کے سر پرسے گستاخی کی تلوار ہٹ گئی۔ عبداللہ شاہ قتل کیس کی فائل بند ہوگئی۔ عامرشاہ خاموش ہوگیا۔ گھر چھوڑدیا۔بچوں کولیکر کسی نامعلوم مقام کی طرف منتقل ہوگیا۔
اسپیشل برانچ کی ایک رپورٹ منظر عام پر آگئی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک منظم گروہ موجود ہے جو نوجوانوں کو ٹریپ کرکے گستاخی کے کیسز میں پھنسارہا ہے۔اس دھندے میں انکے ساتھ عدلیہ اور ایف آئی اے کے کچھ کردار بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں اس مبینہ گروہ کو بلاسفیمی بزنس گروپ کا نام دیا گیا۔ گروپ کے کرداروں کے نام اسپیشل برانچ نےاپنی رپورٹ میں لکھ دیے۔عبداللہ شاہ کے قتل میں نامزد کیے گئے وکیل کواس مبینہ گروہ کا سرغنہ بتایا گیا۔نینشل کمیشن فارہیومن رائٹس نے 62 صفحے کی رپورٹ میں کہانی مزیدکھول دی۔ رہی سہی کسر صحافی احمدنورانی نےفیکٹ فوکس کی رپورٹوں میں پوری کردی۔
متاثرہ نواجونوں کے اہلخانہ یہ تینوں رپورٹیں لیکر ہائیکورٹ چلے گئے۔ پٹیشن فائل کی اورکمیشن کا مطالبہ کردیا۔ جسٹس سرداراعجاز اسحاق خان نےسماعت شروع کردی۔مبینہ گروہ نے عدالت کوہراساں کرنا شروع کردیا۔کرین پارٹی کےجتھے ساتھ لیکر آئے۔نعرے لگائے۔ سوشل میڈیا پر جج کy خلاف مہم چلائی۔رجسٹرار کا گھیراو کیا۔نینشنل کمیشن فارہیومن رائٹس کےدفترمیں گھس کرعملے کو ہراساں کیا۔ پٹیشن فائل کرنے والے وکلا کو نوٹسز بھجوائے۔ عدالت نے بالآخر یہ کیس یوٹیوب پرلائیو دکھانے کا آرڈر دیدیا۔
اس ارڈر نےجتھے کے ہاتھ باندھ دیے۔ مگرآئے روز کوئی نیاانکشاف مبینہ گروہ کیلیے نئی مشکل پیدا کرتا رہا۔اس دن عدالت دھنگ رہ گئی جس دن عبداللہ شاہ قتل کیس کے حوالے سے انسپکٹر منیر کی رپورٹ جج کے سامنے رکھی گئی۔
جج نے اہم سوال اٹھادیا۔والد اگرنامزدملزم کو اپنے طور پربےقصور کہہ دے تو کیا پولیس قتل کی تحقیقات روک دیگی؟ یہ قانون کی کس کتاب میں لکھا ہے جناب۔
مبینہ گروہ وزارت مذہبی امور کے پاس چلاگیا۔کہا، 14 مئی اسلاموفوبیا ڈے کےطورپر منایا جاتا ہے۔اس سال اس دن کاتھیم 'آنلائن بلاسفیمی کی روک تھام'ہونا چاہیے۔ایک نوٹیفیکیشن جاری کرکے ہائیکورٹ بارز کوپابند کردیں کہ وہ اس دن تقریبات کا اہتمام کریں۔وزرات مذہبی امور کوگروہ کی واردات کااندازہ نہیں تھا۔ یہ علم بھی نہیں تھا کہ عدالت میں کیاکچھ پک رہاہے۔
ساڑھے چارسونو جوانوں کیطرح مذہبی امور کی وزارت بھی ٹریپ ہوگئی۔
نوٹیفیکیشن جاری کردیا۔لاہور ہائیکورٹ بارنے پٹیشن کی سماعت کرنے والی عدالت پر دباو ڈالنے کے لیے ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا۔اس تقریب میں ایف آئی اے سائبرکرائم کا ایک خفیہ کردار پہلی بار سامنے آیا۔ نام سرفراز چوہدری تھا اور سائبرکرائم کا ایڈیشنل ڈائریکٹر تھا۔ڈائریکٹر نے مرکزی پریزنٹیشن دی۔کہا، میں علامہ خادم حسین رضوی کا مداح ہوں۔پھر کہا،میں نے ملک بھر سے ساڑھے چار سو لوگ گرفتار کیے ہیں۔ پھر کہا،وکلا ان نوجوانوں کے کیس لڑکراپنی دنیا اورآخرت خراب نہ کریں۔
ایک طرف پٹیشن کی سماعت چل رہی تھی دوسری طرف سائبرکرائم سیل کا ایڈیشنل ڈائریکٹر سامنے آگیا۔تیسری طرف فیصلہ ساز قوتیں اس فیلڈنگ کاصفایا کررہی تھیں جوجنرل فیض حمید 2017 میں لگاکر گئے تھے۔ صفائی کے دوران ہی اندازہ ہوا کہ نینشنل سائبر کرائم کے کچھ افسران تو دراصل اس فیلڈنگ کاحصہ ہیں جو جنرل فیض حمید نےسیاسی رہنماوں، دانشوروں، اساتذہ اور صحافیوں کا گھیراو کرنے کیلیے لگائی تھی۔
ان فیلڈرز نے جس طرح ہاوسنگ سوسائٹیوں پرقبضہ کیا، ٹی وی چینلز ہتھیائے، اسی طرح ان فیلڈرز نے سافٹ وئیر ہاوسز اور کال سینٹرز سے مہینہ لگوایا ہوا ہے۔ تیسری طرف یہ فیلڈرز کاروباری لوگوں اور بے کس گھرانوں کو لوٹنے کیلیے مذہبی قوانین کا استعمال کررہے ہیں۔ کرین پارٹی جیسے جتھے ان کے دست وبازو ہیں۔
ابھی سوچا ہی جارہا تھا کہ ان فیلڈرز کا کیا کرنا ہے،ایڈیشنل ڈائریکٹر نے ڈکی بھائی پہ ہاتھ ڈال دیا۔ ڈکی بھائی کے ساتھ انہوں نے وہی سلوک کیا جو مبینہ گروہ کا نشانہ بننے والے ساڑھے چارسو نوجوانوں کے ساتھ روا رکھا تھا۔
انہوں نے ڈکی بھائی کو نوکروڑ کا ٹیکہ لگایا ہی تھا کہ پہنچنے والے پہنچ گئے۔ جنرل (ر) فیض حمید کی کہانی میں جوکردار ٹاپ سٹی کا بنا، وہی کردار نینشنل سائبر کرائم کے کچھ افسروں کی کہانی میں ڈکی بھائی کا بن گیا۔ سزا ایڈیشنل ڈائریکٹر کو ملنی تھی انصاف ڈکی بھائی کو مل گیا۔
نینشل سائبر کرائم کے کچھ افسران کے پکڑے جانے پرجو فائدہ ڈکی بھائی کوملا، وہی فائدہ ایک حد تک بلاسفیمی کے کیسز میں پھنسائے ہوئے نوجوانوں کو بھی ملا۔
فیلڈنگ اکھڑنے سے جتھے دم توڑ گئے۔ ضمانت پر بچے رہا ہونے لگے۔آج عبداللہ شاہ زندہ ہوتا تواڈیالہ سے واپس آچکا ہوتا۔ مگر اس کا تو کیس ہی بند ہوچکا ہے۔
عبداللہ شاہ کے سہمے والد کی زبان بھی بند ہوچکی ہے۔ وہ بے بسی سے انصاف کی غیبی اسکیم کی طرف دیکھ رہا ہے۔ سوچ رہا ہے، میرےنصیب میں عدالتی انصاف نہیں تھا،کیا میرے نصیب میں کوئی بگ برادر بھی نہیں ہے؟
جب تک طاقت کا اپنا کوئی کوئی فائدہ نہ ہو،کیا تب تک میرے بچے کوانصاف نہیں ملے گا؟ ڈکی جیسے لوگ اپنا نصیب کہاں سے لکھواکر لاتے ہیں؟
واپس کریں