
پنجابی کلینڈر میں 13جنوری گود اجما دینے والی سردیوں کا آخری دن ہے۔ اس دن پوہ کامہینہ ختم ہوتا ہے اور ماگ کاشروع ہوتا ہے۔ اس دن موسم اپنی چال بدلتا ہے۔ ڈپریشن دینے والی لمبی شامیں سکڑنے لگتی ہیں اور اجلے دن اپنے پاؤں پھیلانے لگتے ہیں۔ موسم کی اس کروٹ پرپنجاب جشن مناتا ہے۔ اس جشن کو لوہڑی کہتے ہیں۔
ہولی،کرسمس اور نیو ائیرنائٹ کی طرح لوہڑی کی آہٹ بھی دورسے سنائی دیتی ہے۔ مگھر یعنی دسمبر سے ہی بلاوے شروع ہو جاتے ہیں۔ حلوائی دھوتی کسنے لگتے ہیں۔ چاول دودھ اور گنے کے رس والی کھیر چڑھائی جاتی ہے۔ موٹے تل والے گڑ، گجک اور بتاشے تیار ہوتے ہیں۔ گلیوں سے سرسوں کی ساگ اور مکئی کی مہک آتی ہے۔ ہندو مسلم اور سکھ ایک ہی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ شام کو انگیٹیوں میں آگ کا الاؤ روشن کرتے ہیں۔ڈھولچی ڈھول پیٹتے ہیں اور جوان بوڑھے بچے بھنگڑا ڈالتے ہیں۔ عورتیں ٹپے ماہیے اور دوڑھے گاتی ہیں۔
کہتے ہیں سندری مندری دو ہندو بہنیں تھیں۔ مغل دور میں انہیں اغوا کرلیا گیا تھا۔ پنڈی بھٹیاں کے ایک باغی کردار دُلا بھٹی نے انہیں بازیاب کروایا تھا۔ شادی کروا کر انکی جھولیوں کو گڑ اور شکر سے بھردیا تھا۔ دلابھٹی کا نام رائے عبداللہ خاں بھٹی تھا۔ خوشحال خان خٹک کی طرح وہ بھی مغل سلطنت کے باغی تھے۔ انہیں لاہور میں پھانسی دے کر میانی صاحب کے پاس ایک ٹیلے پر دفنا دیا گیا تھا۔ میانی صاحب قبرستان میں ایک قبر پر دلابھٹی کا نام بھی درج ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں یہ قبر دلا بھٹی کی نہیں ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ اس قبر میں نہیں ہوگا، لوک داستانوں میں تو ہے۔ بولیوں، دوہوں اورٹپوں میں تو ہے۔اہم یہ ہے کہ لوگ اسکی نام کی مالا جپتے ہیں۔ اس سے جڑے ہوئے گیت گاتے ہیں۔اسکی سندری مندری کو یاد کرتے ہیں۔ سندر مندریے، تیرا کون وچھارا ہو، دلا بھٹی والا ہو، دُلے دی دھی ویاہی ہو، سیر شکر پائی ہو۔
یہ سب کہاں ہوتا ہے؟ہم خود پنجابی ہیں ہمارے گھروں میں تو ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہ سب آج بھی ہو رہا ہے مگر لہندے پنجاب میں نہیں ہورہا۔ پاکستان کے حصے میں آنے والے پنجاب میں تقسیم کے بعد والے لوگ لوہڑی کا ذکر نہیں کرتے۔ کچھ بزرگ اسکا ذکر کرتے بھی ہیں تو ذہن پربہت زور ڈالنے کے بعد کرتے ہیں۔ جنہیں یادہے وہ بتاتے ہیں کہ لاہور میں شاہ عالمی، کشمیری بازار، ڈبی بازار، بھاٹی چوک اور لوہاری چوک پر آگ کے بڑے الاؤ روشن کیے جاتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے الاؤ تو ہر گلی روشن ہوتے تھے۔
لوہڑی کے اہتمام کیلئے بچے گھروں اور دکانوں سے لوہڑی مانگتے تھے۔ یعنی پیسے اکٹھے کرتے تھے۔بول گاکر لوہڑی مانگی جاتی تھی۔ بول گاکر ہی شکریہ کہا جاتا تھا۔ڈبہ بھریا لیراں دا تے ایہو گھر امیراں دا۔ لڑکے گنے کی پتلی ڈنڈیوں کے سرے آگ میں گرم کرکے زمین پہ دے مارتے تھے جو پٹاخ سے پھٹ جاتے تھے۔ 13 کی شام دہکتی ہوئی آگ پرپکوان رکھتے تھے۔ ساری رات جو پکتا وہ 14کی صبح کھاتے تھے۔پوہ ردھی، ماگ کھاہدی۔ پوہ کے مہینے میں پکایا اور ماگ میں کھایا۔
یہ دن اپنے زمانے کا ویلنٹائنز ڈے بھی تھا۔ لڑکا گنے کے ڈھیر سے ایک گنا نکال کر اس لڑکی کو دیدیتا جس سے اسکی ہم آہنگی ہوتی تھی۔ لڑکی آدھا گنا توڑ کر پاس رکھ لیتی تو مطلب یہ نکلتا کہ پرپوزل قبول کرلیا گیا ہے۔ طریقے بدل گئے مگر ویلنٹائنز کا یہ رنگ لوہڑی میں آج بھی نمایاں ہے۔
چڑھدے پنجاب میں لوہڑی کا ذکر ماضی کے کسی واقعے کی طرح نہیں ہوتا۔ کسی سے پوچھیں تو وہ آپکو بتاتا ہے کہ پچھلی لوہڑی میں اس نے کیا کیاتھا اور اس لوہڑی پرکیا ارادے ہیں۔ ان کے ہاں لوہڑی ٹریجڈی کامیڈی ہر طرح کی فلموں اور تھیٹروں میں دکھائی دیتی ہے۔ لو آگئی لوہڑی وے، بنالو جوڑی وے۔ یہ مشہور فلم ویرزارا کا گانا ہے جس پر امیتابھ بچن، شاہ رخ خان اور پریٹی زنٹانے پرفارم کیا تھا۔ بالی ووڈ کے پاس دکھانے کو ایسے کئی گانے اور فلمیں ہیں۔
وہاں لوہڑی اب پنجاب کی رسم نہیں رہی۔ وہ نوروز کی طرح پیش قدمی کر رہی ہے۔ تہواروں کی یہی اچھی بات ہوتی ہے۔ایک سرے سے دوسرے سرے تک سب کو خوشی کے رشتے میں باندھ دیتی ہے۔لوہڑی کو دیکھیں۔امرتسر اور جالندھر سے نکل کر انڈیا کے دور دراز علاقوں کی طرف جارہی ہے۔ ہر طرف چلی جائیگی مگر واہگہ بارڈر کراس کرکے چالیس قدم یہاں لاہور نہیں آئیگی۔ واہگہ بارڈر محض جغرافیائی سرحدہوتی تو آبھی جاتی۔سرحد کے ساتھ مگر ایک نظریاتی سرحد کی بھاڑ بھی بچھی ہوئی ہے۔رنگ خوشبو اور موسم سے تعلق رکھنے والی رسمیں نظریاتی سرحدوں کو عبور نہیں کر پاتیں۔ بھسم ہوجاتی ہیں۔
تقسیم سے پہلے لوہڑی یہاں موجود تھی۔اس پر مسلمانوں، سکھوں اور ہندوؤں کے برابر کے کاپی رائٹ تھے۔تقسیم کے بعد ہر اس چیز کاخاتمہ کردیا گیا جو بغیر ویزے کے سرحد عبور کرسکتی تھی۔جو لاہور کے عبدالرحمن اور امرتسر کے کانتی لال کے بیچ رابطے کاذریعہ بن سکتی تھی۔ چلو بسنت پر تو اس لیے پابندی ہے کہ اس کے مانجھے سے گلے کٹ رہے تھے، مگر لوہڑی کسی کاکیا بگاڑ رہی تھی؟ بیساکھی میں کیا مسئلہ تھا؟
پنجاب سےلوہڑی ہی نہیں چھینی گئی، اسکی تاریخ بھی چھینی گئی۔ تاریخ چھیننے کیلئے اس سے اسکی زبان چھینی گئی۔زبان کا ختم ہوجانا مسئلہ نہیں ہوتا۔ مرنا پنپنا، پھیلنا سکڑنا تو زبانوں کا مقدر ہے۔زبان کا ختم کردیا جانا مسئلہ ہوتا ہے۔پنجابی زبان ختم ہوئی نہیں ہے، ختم کی گئی ہے۔ زبان ختم ہوگئی تو اپنے گھرکی طرف جانے والا وہ راستہ ہی بند ہوگیا جسے تاریخ کہتے ہیں۔ متبادل راستے کیلئے من گھڑت تاریخ کاسہارا لیا گیا۔ اس تاریخ میں زمین سے جنم والے ہیرو ولن بن گئے۔ جنہوں نے حملے کیے، بستیاں اجاڑیں،دونوں ہاتھوں سے گندم لوٹی وہ نصاب کاحصہ بن گئے۔ کلاسیکی گھرانے اجڑ گئے۔ تھیٹر ویران ہوگئے۔ موسم سے منسوب لوہڑی کی روایت بھی ہندو مذہب سے منسوب ہوگئی۔
جنوری کی 13 آنے میں ابھی سوا مہینہ باقی ہے۔ جموں سے لیکر پٹیالہ تک لوہڑی کاماحول بن گیا ہے۔رنگارنگ پتنگیں بازاروں میں نکل آئی ہیں۔ عورتیں ساڑھیاں خریدرہی ہیں۔ کمہار لوہڑی کینڈلز کیلئے مٹی کی چھوٹی چھوٹی کٹوریاں بنارہے ہیں۔بڑی انگیٹیوں کوٹاکیاں ماری جارہی ہیں۔ بازاروں میں اسٹال سج رہے ہیں۔
بچے گھروں میں جاکر لوہڑی مانگ رہے ہیں۔ پوری سندر مندریے زبانی سنانے کیلئے گھروں میں بچے مقابلہ کر رہے ہیں۔ لوہڑی مانگتے کیسے ہیں، دیتے کیسے ہیں اورپھر گاتے کیسے ہیں،یہ سب آرٹیفینشل انٹلیجنس کے ذریعے فلما کر انسٹا گرام پر پھینک رہے ہیں۔ دلچسپ خاکے اور کارٹونز بن رہے ہیں۔ لوک گانے والے گلوکار بُک ہو رہے ہیں۔
جنوری کی دس آئیگی توسرکاری تقریبات کاآغاز بھی ہو جائے گا۔ آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن ہوجائیں گے۔ سب مل کر گڑ چبائیں گے، سندر مندریے گائیں گے اور بھنگڑا ڈالیں گے۔ مگر ہم یہاں والے کیا کریں گے؟ وزیر اعلیٰ مریم نواز صاحبہ۔! دیکھ لیں اگرکچھ ہوسکتا ہو۔ سوا مہینہ پڑاہے ابھی۔
واپس کریں