
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے ایک ارب 29 کروڑ ڈالر قرضہ کی قسط جاری کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ واشنگٹن میں ہونے والے اجلاس میں ایگزیکٹیو بورڈ نے دوسرے اقتصادی جائزے کی منظوری دیدی۔ آئی ایم ایف نے جاری قرض پروگرام پر عمل درآمد کو مضبوط قرار دیا اور حکومت نے معاشی اصلاحات پر عمل درآمد جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ایک ارب 29 کروڑ ڈالر ملنے سے پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر میں مزید اضافہ ہوگا۔ مذکورہ رقم میں آر ایس ایف کے تحت 20 کروڑ ڈالر سے زائد کی پہلی قسط شامل ہے۔ دونوں قرض پروگرامز کی مجموعی رقم 3.3 ارب ڈالر ہو جائے گی۔ اس سب کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ ہر قسط کی منظوری کے ساتھ آئی ایم ایف اصلاحات کی طویل فہرست سامنے رکھ دیتا ہے جس پر عمل درآمد عوام کے لیے نئے معاشی بوجھ کا باعث بنتا ہے۔ مہنگائی میں اضافہ، بجلی و گیس کے مسلسل بڑھتے نرخ، ٹیکس نیٹ کی سختیاں اور سرکاری اداروں کی نجکاری جیسے اقدامات وہ شرائط ہیں جنھیں پورا کرنا حکومت کے لیے سیاسی طور پر مشکل مگر معاشی نظام کے لیے ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ حکمران وقتاً فوقتاً اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان اصلاحات کے نتائج عام آدمی کے لیے تکلیف دہ ہیں، لیکن فنڈنگ کے بغیر مالی نظام کے چلنے کی گنجائش نہ ہونے کے باعث وہ ان شرائط کو من و عن تسلیم کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ اگر گزشتہ کئی دہائیوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی معیشت ایک مستقل دائرے میں گھوم رہی ہے۔ جب بھی زر مبادلہ کے ذخائر کم ہوتے ہیں یا مالی خسارہ بڑھ جاتا ہے تو حکومتیں آئی ایم ایف سے رجوع کرتی ہیں اور وقتی سہارا ملنے کے بعد دوبارہ وہی مسائل جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشی اصلاحات کا عمل کبھی تسلسل کے ساتھ جاری نہیں رہ سکا۔ ایک حکومت اصلاحات کا آغاز کرتی ہے تو نئی حکومت آنے پر پالیسیوں کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ادارہ جاتی تبدیلیاں کبھی عملی شکل اختیار نہیں کر سکتیں۔ اسی بنا پر آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ پروگرام کو ’آخری پروگرام‘ قرار دینے کے باوجود ایسے ٹھوس اقدامات نظر نہیں آ رہے جو اس دعوے کی عملی تائید کریں۔ پاکستان کی معیشت کو دراصل دو بڑے چیلنج درپیش ہیں، ایک طرف زر مبادلہ کمانے کے ذرائع محدود ہیں، برآمدات میں تنوع کی کمی اور صنعتوں میں پائیدار ترقی کا فقدان ہے اور دوسری جانب درآمدی انحصار بہت زیادہ ہے جس سے تجارتی خسارہ بڑھے بغیر رہ نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ ٹیکس نظام کی کمزوریاں، بد عنوانی، سرکاری اداروں کی ناکارہ کارکردگی اور سیاسی عدم استحکام معیشت کو بار بار بحران سے دو چار کرتے ہیں۔ جب بنیادی مسائل حل نہ ہوں تو قرضوں کا حصول وقتی سہارا تو فراہم کرتا ہے مگر طویل مدتی استحکام کی راہ میں رکاوٹ بنا رہتا ہے۔ قوم اس بات کی منتظر ہے کہ کب پاکستان اس قرض کے چکر سے نکلے گا اور معاشی خود مختاری حاصل کرے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھا جائے، ادارہ جاتی اصلاحات پر اخلاص سے عمل کیا جائے، برآمدات میں اضافہ اور صنعتوں کی بحالی پر توجہ دی جائے۔ جب تک اپنے وسائل پر انحصار بڑھانے کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے جاتے، آئی ایم ایف سے چھٹکارے کی باتیں صرف نعروں تک محدود رہیں گی۔ معیشت کی بہتری اور عوام کی حالت سدھارنے کے لیے مشکل فیصلے کرنا اور ان پر قائم رہنا ناگزیر ہے۔بشکریہ نوائے وقت
واپس کریں