دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اعلان آزادی کیا تھا؟
No image اب پاکستان کے زیرانتظام جموں کشمیر کے حکمرانوں کو اپنے ہی 24 اکتوبر 1947 والے اعلان آزادی کے متن سے خوف آنے لگا ہے۔اس اعلان کا ذکر کرو تو نصف درجن وزیر دوڑ کر دفتر اطلاعات پہنچ جاتے ہیں اور پھولی ہوئی سانسوں سے بوکھلائی ہوئی پریس کانفرنس کر ڈالتے ہیں۔
اعلان آزادی کیا تھا؟
ہنگامی حکومت ’جسے عوام نے کچھ ہفتے قبل ناقابل برداشت ڈوگرہ مظالم کے خاتمے اور عوام کے اقتدار کے حصول کیلئے بنایا گیا تھا'‘ نے اب ریاست کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے اور بقیہ حصے کو ڈوگرہ ظلم و تسلط سے آزاد کروانے کی امید کیے ہوئے ہے۔
ان حالات کے پیش نظر حکومت کی تشکیل نو عمل میں لائی گئی اور دفاتر کو پلندری منتقل کر کے مسٹر ابراہیم بیرسٹر کو حکومت کا عارضی صدر مقرر کیا گیا ہے۔
نئی حکومت ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کی مستند آواز کی ترجمان ہے کہ عوام کو ظالم اور غاصب ڈوگرہ خاندان سے نجات دلائی جا سکے۔
آزادی کی تحریک جس نے اس عبوری حکومت کو جنم دیا 1919 سے جاری ہے ۔ اس تحریک میں جموں کشمیر کے ہزاروں لوگوں نے جیلیں کاٹیں ، جانوں کی قربانی دی ۔ بہرحال عوام کی مستند آواز کی جیت ہوئی ہے اور حکمران کی مسلح فوج ہار گئی ہے۔
حکمران اپنے وزیراعظم کے ساتھ کشمیر سے بھاگ چلا ہے اور شاید عنقریب جموں سے بھی بھاگ نکلے گا۔عارضی حکومت جو ریاست کا نظام اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے ایک فرقہ وارانہ حکومت نہیں ہے۔
اس حکومت کی عارضی کابینہ میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی شریک ہوں گے۔ حکومت کا مقصد سردست ریاست میں نظم و نسق کی بحالی ہے کہ عوام اپنی رائے سے ایک جمہوری آئین ساز اور ایک نمائندہ حکومت چن لیں۔
ہمسایہ مملکت ہائے پاکستان اور ہندوستان کے بہترین جذبات، دوستی اور خیر سگالی رکھتی ہے۔ امید کرتی ہے کہ دو مملکتیں کشمیری عوام کی فطری آرزو آزادی کے ساتھ پوری پوری ہمدردی کریں گی۔ عارضی حکومت ریاست کی جغرافیائی سالمیت اور سیاسی انفرادیت برقرار رکھنے کی متمنی ہے۔
پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کا سوال یہاں کے عوام کی آزادانہ رائے شماری سے کیا جائے گا، غیر ملکی مبصرین کو دعوت دی جائے گی کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ عوام کی آزادانہ رائے سے یہ مسئلہ بخیر و خوبی طے ہو گیا ہے۔
(روزنامہ پاکستان ٹائمز لاہور۔مورخہ 25 اکتوبر 1947 )
بشکریہ : ہفت روزہ کشیر۔
واپس کریں