آدھا تیتر آدھا بٹیر ۔ مذہب، طاقت اور مفاد کا کھیل آخر کب تک؟ سونیا خان خٹک

اسلام آباد یا ریاست کے دفاع کے معاملے میں جب بھی خطرہ نظر آتا ہے تو حکومت فوراً اور فیصلہ کن ردِ عمل دکھا دیتی ہے۔ فوجی و سکیورٹی ادارے فوری طور پر ایکشن میں آ جاتے ہیں، سرحدی دفاع اور دارالحکومت کی حفاظت کو اولین ترجیح ملتی ہے۔ کاش یہی عزم پورے پاکستان کی عوام کے تحفظ کے لیے بھی دکھایا جاتا— خاص طور پر اُن اوقات میں جب توہینِ مذہب کے نام پر جھوٹے الزامات لگا کر افراد پھنسائے جاتے، حلقوں میں “سر تن سے جدا” کے نعرے بھڑکتے اور بعض واقعات میں زندہ انسانوں کو نذرِ آتش کر دیا جاتا ہے، یا اقلیتیں نشانہ بن کر دہشت پھیلاتی ہیں۔ کیوں ریاست وہی طاقت اور حوصلہ پورے ملک کے شہریوں کو یکساں تحفظ دینے میں استعمال نہیں کرتی؟
حکومت کے نمائندے طلال چوہدری نے تحریکِ لبیک پاکستان (TLP) کو خبردار کیا کہ وہ غیر مجاز احتجاجات اور تشدد کے ذریعے خلل ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں، لہٰذا حکومت نے ان کے خلاف سخت کارروائی کا حکم صادر کیا ہے۔ مگر سوال وہی ہے: جن تنظیموں کو کبھی خود ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھایا گیا ہو، انہیں اس انجام تک پہنچنے سے پہلے کیوں نہ روکا گیا؟
یہ پاکستان کی طاقت، عقیدے اور سیاست کے درمیان وہ دائمی تضاد ہے جس نے ملک کی فکری سمت بگاڑ کر رکھ دی۔
ریاست مذہب اورلسانیت کو کبھی ڈھال بناتی ہے، کبھی ہتھیار۔ کبھی وہ ان گروہوں کو “دین کے محافظ” بنا کر نوازتی ہے، اور جب وہ ریاستی مفاد سے ہٹ جائیں تو ان پر کریک ڈاؤن کرتی ہے۔
لال مسجد، ایم کیو ایم، اور اب ٹی ایل پی — ہر بار ایک ہی کھیل، ایک ہی انجام۔
بین الاقوامی رپورٹس جیسے SAGE Journal (2021) اور The Economic Times (2022) بارہا لکھ چکی ہیں کہ پاکستانی ریاست نے مذہبی گروہوں کو داخلی دباؤ اور خارجی مفادات کے توازن کے لیے استعمال کیا۔
اصل تضاد یہیں ہے — جب ریاست امریکہ اور سعودی عرب کے مفادات کی محافظ بن کر عالمی سیاست میں کردار ادا کرتی ہے، تو مذہب کو بطور ہتھیار اپنے ہی عوام کے خلاف کیوں استعمال کرتی ہے؟
کیا یہ سچ نہیں کہ جب واشنگٹن کے حکم پر “دہشت گردی کے خلاف جنگ” میں شامل ہونا پڑا، تو وہی مذہب جس کے نام پر عوام کو مشتعل کیا گیا تھا، پس پشت ڈال دیا گیا ۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ جب عالمی تعلقات کا تقاضا ہو تو مذہب کے نعروں کو دبا دیا جاتا ہے، اور جب عوام پر گرفت درکار ہو تو وہی نعرے دوبارہ زندہ کر دیے جاتے ہیں۔
اگر یہی سیاست چلنی ہے —تو پھر کیوں نریاست کھل کر سامنے نہیں آتی اور اگر واقعی قوم کو بچانا مقصود ہے،تو پھر اس دوغلے نظام کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
پاکستان کو ایک حقیقی سیکولر ریاست بنایا جائے جہاں مذہبی آزادی ہر شہری کا بنیادی حق ہو،جہاں مذہب ریاستی معاملات سے مکمل طور پر الگ ہو،جہاں کسی عقیدے کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے یا کسی پر “توہینِ مذہب” کا الزام لگا کر اس کی جان لینے کی اجازت نہ ہو۔
ریاست کو چاہیے کہ وہ مذہب کے نام پر تشدد کے دروازے بند کرے،توہینِ مذہب جیسے قانون ختم کرے جو انصاف کے بجائے انتقام کا آلہ بن چکے ہیں،اور ایسا نظام قائم کرے جہاں انصاف، برابری اور انسانی حرمت ہر عقیدے کے پیروکار کے لیے یکساں محفوظ ہو۔کیونکہ اب سوال یہ نہیں کہ ہم مذہب کے نام پر کہاں کھڑے ہیں —
سوال یہ ہے کہ کیا ہم انسانیت کے نام پر زندہ رہنا چاہتے ہیں؟ریاست کب تک اپنے مفاد کے لیے مذہب کو تلوار اور عوام کو ڈھال بنائے رکھے گی؟اور کب وہ یہ تسلیم کرے گی کہ نجات صرف ایمان کے نام پر نہیں، انصاف کے نظام پر ممکن ہے؟
واپس کریں