نجیب الغفور خان
افواجِ پاکستان اور عوام کا لافانی ایثار، کشمیری بھائیوں کے لیے دل کی دھڑکن بن گیا!زلزلے کی لرزہ خیز یادیں آج 20 سال بعد بھی باقی ہیں۔
تارِیخِ اَقوام میں قُدرتی آفات اور بڑے حادثات کا رُونما ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ہر قوم اپنے وسائل، تدبیر اور منصوبہ بندی کے ساتھ اِن چیلنجز سے نبرد آزما ہوتی ہے تاکہ ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی روک تھام کی جا سکے یا کم از کم انہیں محدود کیا جا سکے۔ قُدرتی آفات میں زلزلہ ایک ایسی آفت ہے جو زمین کے کسی بھی حِصے کو تباہی و بربادی سے دوچار کر سکتی ہے۔
بیسویں اور اکیسویں صدی کے دوران کئی تباہ کُن زلزلے آئے جو لاکھوں جانوں کو نِگل گئے۔ زلزلہ درحقیقت زیرِ زمین چٹانوں کی تہوں میں جاری طویل حرکات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی توانائی کے اچانک اخراج سے سطح زمین پر پیدا ہونے والی شدید ہلچل کا نام ہے۔ اِس کو قدرتی آفات میں سب سے ہولناک اور تباہ کُن تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ اچانک وارد ہوتا ہے اور پلک جھپکتے ہی انسانوں کی بستیوں اور اُن کی زندگیوں کو ملیامیٹ کر دیتا ہے۔
آٹھ اکتوبر 2005ء کے قیامت خیز زلزلے کو 20 برس بیت گئے ہیں۔ اس دن پاکستان اور آزاد کشمیر میں آنے والے اس خوفناک زلزلے نے ہزاروں افراد کی جانیں لے لیں اور لاکھوں کو بے گھر کر دیا۔ یہ زلزلہ پاکستان اور کشمیر کی تاریخ میں اب تک کی سب سے بڑی قدرتی آفت تھی۔ 8 اکتوبر 2005ء کا سورج جب طلوع ہوا تو قدرت نے تمام تصورات، خیالات اور معمولات کو ایک جھٹکے میں زمین بوس کر دیا۔ 7.6 کی شدت سے آنے والے اس زلزلے کا مرکز زمین سے صرف 15 کلومیٹر نیچے تھا۔ اس صبح آزاد کشمیر اور پاکستان میں قیامت صغریٰ کے بعد ہر طرف دردناک مناظر تھے۔ بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور عورتوں کی چیخ و پکار دل کو لرزا رہی تھی۔ کہیں روتے بلکتے معصوم ننھے فرشتے تھے تو کہیں اپنے پیاروں کی موت پر ماتم کرتے نوجوان۔ منہدم عمارتوں کے ملبے میں پڑی روز مرہ کی اشیاء بتا رہی تھیں کہ لوگ موت سے بے خبر اپنے کاموں میں مصروف تھے اور یکایک ان پر آفت ٹوٹ پڑی۔ اس قیامت صغریٰ میں بچ جانے والوں کی کیفیت بھی عجیب تھی۔ ایک طرف وہ نئی زندگی ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے، تو دوسری طرف اپنے عزیزوں، دوستوں اور رشتہ داروں کی میتوں پر ماتم، ہر طرف نفسا نفسی اور کرب کا عالم تھا۔ ملبے کے اندر سے آنے والی آوازیں دلوں کو ہلا رہی تھیں، مگر کسی کے بس میں نہیں تھا کہ ملبہ ہٹا کر ان زندہ انسانوں کو باہر نکال سکے۔ صرف پینتالیس سیکنڈ کے جھٹکوں نے بڑے بڑے محلات کو زمین بوس کر دیا۔ اس زلزلے نے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بہت سے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے۔ آزاد کشمیر میں اس کی شدت بہت زیادہ تھی، جہاں مظفرآباد سمیت دیگر علاقوں کو شدید نقصان پہنچا۔ بجلی، صحت، تعلیم، مواصلات اور ٹریفک کا سارا نظام درہم برہم ہو گیا۔ یہ زلزلہ اُس وقت آیا جب ملازمین دفاتر کی طرف، طالب علم سکول اور کالج کی طرف رواں دواں تھے، جبکہ کئی معصوم بچے سکولوں کے صحن میں دعا میں مصروف تھے۔ کسی کو یہ خبر نہیں تھی کہ آنے والی گھڑیاں اس کے لیے قیامت بن کر آئیں گی اور چند لمحوں میں کیا ہونے والا ہے۔ اس زلزلے میں کئی ایسے معجزاتی مناظر بھی دیکھنے کو ملے جنہوں نے قدرت خداوندی کی گواہی دی۔ ترکی کے امدادی کارکنوں نے مظفرآباد میں ایک پینتالیس سالہ خاتون رشیدہ کو 105 گھنٹے ملبے میں دبے رہنے کے بعد زندہ نکال لیا۔ اسی طرح، امدادی کارکن ملبہ ہٹانے میں مصروف تھے کہ ایک 5 سالہ بچی رینگتی ہوئی ملبے میں سے باہر نکل آئی۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ بچی بغیر کھائے پئے چار دن تک زندہ و سلامت رہے گی۔ مگر جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے۔
متاثرہ علاقوں میں اُس دوران برف باری اور بارشوں کی وجہ سے امدادی کاموں میں مشکلات کا سامنا بھی رہا، مگر یہ بارش کئی لوگوں کے لیے رحمت کا باعث بھی بنی۔ مظفرآباد کا ایک 70 سالہ شخص 80 گھنٹے تک ملبے تلے بارش کا پانی پی کر زندہ رہا جو ملبے کی درزوں سے اس تک پہنچتا تھا۔ یہ اور اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں جنہوں نے انسانی عقل کو حیرت میں ڈال دیا۔ چند لمحوں کے اس ہولناک زلزلے سے 87 ہزار سے زائد افراد جاں بحق، ہزاروں زخمی ہوئے اور کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ زلزلے کے نتیجے میں لاکھوں مکانات زمین بوس ہوئے اور نو سو سے زائد آفٹر شاکس آئے۔ اس زلزلے میں مظفرآباد اور باغ کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں مکانات، اسکولز، کالجز، دفاتر، ہوٹلز، ہسپتال، مارکیٹیں اور ہزاروں تعلیمی ادارے پلک جھپکنے میں ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ ان علاقوں میں پچاس ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے، جبکہ پانچ لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ شہدائے زلزلہ میں 18 ہزار تو صرف وہ طلبا تھے جو سکولوں کی عمارتیں گرنے کی وجہ سے جاں بحق ہوئے۔ اس مشکل گھڑی میں پاکستان کی بہادر قوم اور افواج پاکستان نے اپنے کشمیری بھائیوں کی امداد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سول سوسائٹی، بچوں، نوجوانوں اور عورتوں کا جذبہ قابل دیدنی تھا۔ عورتوں نے اپنے زیورات بیچ کر بھی اپنے بہن بھائیوں کی امداد اور ہمدردی کا اظہار کیا۔ دیگر اسلامی ممالک اور خصوصی طور پر برادر اسلامی ملک ترکی نے متاثرین کی بحالی میں ہر ممکن تعاون کیا۔ کشمیریوں کا اپنا عزم و حوصلہ بھی ایک زندہ قوم کی مانند بلند و بالا تھا۔ جس کی بدولت آج الحمدللہ نہ صرف ریاست کی تعمیر و بحالی کے کام مکمل ہوئے بلکہ آج مظفرآباد ایک جدید اور مکمل شہر بن چکا ہے۔ 8 اکتوبر کا دن جہاں اپنے پیاروں کو یاد کرنے کا دن ہے، وہیں یوم عزم تعمیر نو بھی ہے، جو اس امر کا اعادہ کرتا ہے کہ کشمیری ایک زندہ قوم ہیں جو ہر قسم کے بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
واپس کریں