دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پن بجلی منصوبوں پر آزاد کشمیر کی ملکیت کا سوال۔ جلال الدین مغل
No image آزاد جموں و کشمیر میں پن بجلی کے منصوبے ایک طویل عرصے سے تنازعے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ اس خطے کے دریا پاکستان کے لیے بجلی پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں، مگر ان منصوبوں کی ملکیت اور آمدنی پر آزاد کشمیر کے عوام اور حکومت کے تحفظات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ منگلا ڈیم ہو یا نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، ان سب کو وفاقی ادارے واپڈا اور حکومتِ پاکستان براہِ راست کنٹرول کرتی ہے، جبکہ آزاد کشمیر کو صرف پانی کے استعمال کی معمولی رائلٹی ملتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسا خطہ جو پاکستان کا صوبہ نہیں بلکہ ایک متنازعہ اکائی ہے، اس کے وسائل پر ملکیت کا حق کس کا ہونا چاہیے؟
پاکستان کے آئین 1973ء میں آرٹیکل 257 یہ واضح کرتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام الحاق کی صورت میں اپنے تعلقات کی نوعیت طے کریں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئینِ پاکستان آزاد کشمیر کو اپنی وفاقی اکائی کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ دوسری طرف آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین 1974ء توانائی کے بڑے منصوبے لگانے کا اختیار آزاد جموں و کشمیر کونسل کو منتقل کرتا ہے، جس کی سربراہی وزیراعظم پاکستان کرتے ہیں۔ یوں ایک آئینی ڈھانچے کے ذریعے آزاد کشمیر کے وسائل پر انتظامی اختیار پاکستان کو حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ منصوبے آزاد کشمیر کی زمین اور دریاؤں پر تعمیر ہوتے ہیں، لہٰذا اصولی طور پر ان کی ملکیت کا حق بھی آزاد کشمیر ہی کا ہونا چاہیے۔ تاہم پاکستان اور آزاد کشمیر دونوں کے آئین ان منصوبوں کی ملکیت یا شراکت کے کسی طریقہ کار پر خاموش ہیں۔ یہی ابہام آزاد کشمیر میں بے چینی اور اضطراب کا سبب ہے۔
یہاں بنیادی مسئلہ صرف قانونی نہیں بلکہ اخلاقی اور سیاسی بھی ہے۔ چونکہ ان منصوبوں پر سرمایہ کاری کا انتظام حکومت پاکستان نے کیا ہے اور اس میں آزاد کشمیر حکومت کا کوئی کردار نہیں تاہم یہ بھی پیش نظر رہے کہ آزاد کشمیر کی موجودہ متنازعہ حیثت اور پاکستان اور آزاد کشمیر کے دساتیر اس خطے کے وسائل کو براہ راست پاکستان کی ملکیت میں نہیں دیتے۔ ملک بھر میں عوام کو بجلی مہیا کرنے اور قومی ضرورتوں کے پیش نظر ان منصوبوں کا کنٹرول حکومت پاکستان کے پاس رہنا تو سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ مگر کیا بہتر نہ ہوگا کہ اس سلسلے میں آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ ایک باقاعدہ، شفاف اور تحریری معاہدہ کیا جائے؟ ایسا معاہدہ نہ صرف آزاد کشمیر کے عوام کے اعتماد کو بحال کرے گا بلکہ پاکستان کے مؤقف کو بھی بین الاقوامی سطح پر مضبوط بنائے گا کہ وہ ایک متنازعہ خطے کے وسائل کو یکطرفہ طور پر استعمال میں رکھنے کے بجائے مقامی حکومت کے اشتراک اور رضامندی کے ساتھ بروئے کار لا رہا ہے۔
اس بحث کو درست تناظر میں دیکھنے کے لیے چار نکات کا سمجھنا لازمی ہے:
آئین پاکستان آزاد کشمیر کے تحت آزاد کشمیر پاکستان کا باضابطہ حصہ نہیں ہے اور نہ ہی آئین پاکستان آزاد کشمیر کو حصہ یا صوبہ قرار دیتا ہے، صرف مستقبل کے الحاق کی صورت میں تعلقات کی بات کرتا ہے۔
حکومت پاکستان آزاد کشمیر سے متعلق جو اختیارات استعمال کرتی ہے وہ پاکستان کے آئین کے تابع نہیں بلکہ آزاد جموں وکشمیر کے عبوری آئین کے تابع ہیں۔
عبوری آئین 1974ء کے تحت بڑے اختیارات کشمیر کونسل کو حاصل ہیں، جس کے سربراہ وزیر اعظم پاکستان ہیں اور اس کونسل میں آزاد کشمیر کے منتخب نمائندوں سے زیادہ تعداد پاکستان سے ان ممبران کی ہے جن کے انتخاب میں آزاد کشمیر کے عوام کا کوئی کردار نہیں۔
جو پن بجلی منصوبے آزاد کشمیر کی حدود میں واقع ہیں، ان پر ملکیت یا کم از کم شراکت کا پہلا حق آزاد کشمیر کا ہے، اگرچہ ان کا استعمال پاکستان کے قومی مفاد سے جڑا ہوا ہے۔
یہ وقت ہے کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کے درمیان وسائل کے استعمال پر ایک نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیا جائے۔ بصورتِ دیگر، پن بجلی جیسے منصوبے آزاد کشمیر میں محرومی اور بےاعتمادی کے جذبات کو مزید ہوا دیتے رہیں گے۔ ایک ایسا معاہدہ جو شفاف، مساوی اور باہمی رضامندی پر مبنی ہو، نہ صرف آزاد کشمیر کے عوام کو ان کا جائز حق دے گا بلکہ پاکستان اور آزاد کشمیر کے درمیان آئینی ڈھانچے، سیاسی رشتے اور جذباتی تعلق کو اور بھی زیادہ مضبوط اور معتبر بنائے گا۔
واپس کریں