
تحریکیں زور و شور سے اٹھتی ہیں اور شوریدہ رَو کی طرح چلتی رہتی ہیں۔پھر ایک موڑ آ جاتا ہے۔ تحریک اپنی رفتار میں آگے نکل جاتی ہے اور قیادت پیچھے رہ جاتی ہے۔
پھر کارکن قیادت کو بتانے لگتے ہیں کہ اب کیا کرنا ہے۔ قیادت اپنی بقا بھی اسی میں دیکھتی ہے کہ وہ خاموشی سے کارکنوں کے پیچھے چلتی رہے۔ وہ انجام جسے قیادت اپنی دور اندیشی سے بھانپ رہی ہوتی ہے، وہ کارکن کو بتانے سے گریز کرتی ہے۔ سامنے نظر بھی آرہا ہو کہ یہ وقت فایدہ مند مصالحت کا ہے، تو بھی کارکن کو نہیں بتاتی۔ کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اسے "کمپرومائزڈ" کہہ کر مسترد کردیا جائے گا۔
یہ قیادت کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ تہمت کا بوجھ اٹھا کر کوئی بروقت فیصلہ لیتی ہے یا پھر تہمت سے بچنے کے لیے خود کو عوام کے بے نتیجہ سیلاب میں بہادیتی ہے۔ پچھلے چند برسوں میں یہی دیکھا گیا ہے کہ قیادت نے خود کو سیلاب کے حوالے ہی کیا ہے۔
ایسا تب ہوتا ہے جب قیادت کے پاس زمینی سیاست کا تجربہ نہ ہو یا اس کا انداز سیاسی سے زیادہ انقلابی ہو۔
سیاسی مزاحمت کا اصل رنگ ڈھنگ وہی ہونا چاہیے جو کشمیری عوام نے اب تک اپنایا ہے۔ خدا جانے یہ ڈھنگ کب تک برقرار رہ سکے گا، مگر فی الحال اس کی مثال نہیں ملتی۔
مشاورتی عمل، عوامی رابطہ، احتجاج کا فریم ورک، مذاکرات میں جانے اور واپس آنے کا سلیقہ، دباؤ کو قائم رکھنے کا طریقہ، بروقت ہدایات اور سب سے بڑھ کر طاقتور حلقوں کے پروپیگنڈے کا فوری توڑ۔۔۔۔۔ ہر چیز میں ایک شاندار سیاسی رمق نظر آرہی ہے۔
جہاں تک بات ہے ذرا سی اونچ نیچ کی، تو بھائی کچھ اونچ نیچ تو چلنی بھی چاہیے۔ جیسے جواد شیخ کہتا ہے، تھوڑا بہت خراب تو ہونا بھی چاہیے۔
واپس کریں