محمد ریاض ایڈووکیٹ
عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تقریبا 44 فیصد آبادی یعنی 10کروڑ 80 لاکھ نفوس غربت کا شکار ہیں۔ بنیادی ضروریات زندگی روٹی، کپڑا، مکان، بجلی، گیس، پانی کے بل، ادویات کے اخراجات کیساتھ ساتھ اگر آپکو قانونی دادرسی حصول کے لئے کچہری کا رُخ کرنا پر جائے تو سمجھیں غریب کی زندگی برباد ہوگئی۔ متاثرہ شخص قانونی دادرسی حصول کے لئے جہاں کچہری میں اپنی جوتیاں گھسا رہا ہوتا ہے وہیں پر اسکی جیب خالی ہورہی ہوتی ہے حتیٰ کہ جائیدادیں تک بیچنی پڑ جاتی ہیں۔ یہ ضرب المثل زبان زد عام ہے کہ ''رب کسی دشمن کو بھی ہسپتال اور کورٹ کچہری کے چکروں میں نہ ڈالے''۔ جبکہ دوسری طرف ریاست پاکستان کی ذمہ داریوں کے حوالہ سے آئین پاکستان کے باب نمبر 2 اور آرٹیکل37Dمیں واضح درج ہے کہ ریاست سستے اور تیز ترین انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ سستا تو درکنار فوری انصاف کا حصول ہی جان جوکھوں کا کام ہے۔ عائلی ودیوانی مقدمات میں انصاف کے حصول میں تاخیر فوجداری مقدمات کے دروازے کھول دیتی ہے۔ ریاست پاکستان کی چھوٹی بڑی عدالتوں میں بائیس لاکھ سے زائد مقدمات زیرالتواء ہیں۔ یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہوگی کہ ریاست پاکستان اپنے شہریوں کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ142ممالک کی عدالتوں کی عالمی درجہ بندی میں پاکستانی عدالتی نظام 129ویں نمبر پر آتا ہے۔
بہرحال دیر آید درست آیدقانون و انصاف کمیشن آف پاکستان ''ہماری ترجیح غریب افراد کے لیے حصو ِل انصاف کو یقینی بنانا'' کے نعرے کیساتھ میدانِ عمل میں ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مفت قانونی امداد کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔ قانون و انصاف کمیشن کے جاری کردہ اشتہار کو حرف بہ حرف اس تحریر کا حصہ بنایا گیا ہے۔ تاکہ عوام الناس کی آگاہی میں آسانی ہو۔
مفت قانونی امداد بذریعہ ڈسٹرکٹ لیگل ایمپاورمنٹ کمیٹی:
انصاف تک رسائی ہرشخص کا بنیادی حق ہے اور اس کے حصول کو ممکن بنانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ بعض افراد مفلسی کے باعث اپنے مقدمات کادفاع کرنے کی استعداد نہیں رکھتے لہذا ایسے افراد کی مفت قانونی امداد کے لئے قانون و انصاف کمیشن پاکستان نے ملک کے 132 اضلاع میں کمیٹیاں برائے مفت قانونی امدادقائم کی ہیں۔
ضلعی کمیٹی برائے مفت قانونی امداد/ ڈسٹرکٹ لیگل ایمپاورمنٹ کمیٹی:۔
کمیٹی کی سربراہی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج/ضلع قاضی صاحب کرتے ہیں جبکہ اس کے ممبران میں ڈپٹی کمشنر، سپرنٹنڈنٹ جیل،صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اورسول سوسائٹی کے نمائندہ شامل ہیں۔ یاد رہے مفت قانونی امداد فراہمی منصوبے کو یقینی بنانے کے لئے جولائی 2011 میں، لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان نے قانونی نوٹیفکیشن کے ذریعے ڈسٹرکٹ لیگل ایمپاورمنٹ کمیٹیاں قائم کی تھیں۔
کون مفت قانونی امداد کا حقدار ہے؟
ہروہ شخص ہے جومحدود مالی وسائل کی وجہ سے فوجداری، دیوانی اور عائلی مقدمات میں اپنے قانونی حقوق کا دفاع ضلعی عدالتوں یا ہائی کورٹ میں نہ کرسکے مفت قانونی امداد کا حقدار ہے۔
مفت قانونی امدا د کی نوعیت:
مفت قانونی امداد، وکیل کی فیس،کورٹ فیس،نقول کے اخراجات، پراسیس فیس یا کسی دیگر مد میں جومستحق فرد کو انصاف کے حصول میں معاون ثابت ہو، کی صورت میں ادا کی جائے گی۔ مزید ازاں یہ امداد قیدیوں کو بھی حاصل ہے۔
مفت قانونی امداد کے حصول کا طریقہ:۔
مستحق شخص سادہ کاغذ پر مفت قانونی امداد یا کسی مقدمے کے اخراجات کی ادائیگی کیلئے متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کودرخواست دے سکتا ہے۔ درخواست کے ہمراہ صرف شناختی کارڈ کی نقل یا کوئی اور شناختی دستاویز لف ہونا ضروری ہے۔ سپرنٹنڈنٹ جیل بھی ایسے نادار قیدی (زیر سماعت یا سزا یافتہ) جن کے مقدمات مالی وسائل میسر نہ ہونے کی وجہ سے التوا کا شکارہورہے ہوں کی درخواستیں مفت قانونی امداد کے لئے کمیٹی کو بھجوا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ کوئی عدالت زیر سماعت مقدمات میں مستحق فرد کی مفت قانونی امداد کے لئے کمیٹی سے استدعا کرسکتی ہے۔
مفت قانونی معا ونت کے لیے وکلاء کی تقرری:۔
درخواستوں کی جانچ پڑتال اور درخواست دہندہ کی مالی حیثیت کے تعین کے بعد،کمیٹی مفت قانونی امدادکی فراہمی کے لیے منظورشدہ فہرست سے وکیل مقرر کرے گی اور مناسب سمجھے تو دیگر عدالتی اخراجات کی ادائیگی بھی کر سکتی ہے۔ کمیٹی مقدمہ کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے وکیل کی فیس حد پچاس ہزار روپے تک کا تعین کر یگی۔
عوامی آگاہی مہم:۔
ڈسٹرکٹ لیگل ایمپاورمنٹ کمیٹیز کا قیا م مستحق افراد کی انصاف تک رسائی ممکن بنانے کی جانب ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس اقدام سے فائدہ اُ ٹھانے کے لئے لازم ہے کہ عوام کو اس بارے میں آگاہی فراہم کی جائے تا کہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ان سے رجوع کر سکے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مستحق افراد کے لئے مفت قانونی امداد کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا مالکان صدقہ جاریہ سمجھتے ہوئے مفت اشتہارات چلائیں۔ اور اسی طرح صوبائی بار کونسلز، ضلعی و تحصیل بار ایسوسی ایشنز و دیگر وکلاء تنظیمیں، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ریاست پاکستان کی اس کاوش کو کامیاب بنانے میں اپنا موثر کردار ادا کریں۔
واپس کریں