محمد ریاض ایڈووکیٹ
ریاست پاکستان کو سب سے پہلے اسلامی جمہوریہ ایران نے تسلیم کیا۔پاکستان،ایران باہمی تعلقات ہمیشہ ہی سے خوشگوار رہے ہیں۔ باوجود اسکے خمینی انقلاب، افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ اوراسی، نوے کی دہائیوں میں دونوں ریاستوں میں فرقہ وارانہ پُرتشدد کاروائیوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی بناء پر شدید اختلافات رہے ہیں جس بناء پردونوں ریاستوں میں دُوریاں بھی رہی ہیں۔ مگر بہت سے معاملات میں پاکستان اور ایران ہمیشہ سے یک جان دوقالب رہے ہیں۔ چاہے وہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی حمایت ہویا پھر فلسطینی جدوجہد آزادی کی تحریک۔ یاد رہے پاک بھارت جنگوں میں ایران نے ہمیشہ پاکستانی ریاست کی نہ صرف کھل کر حمایت کی بلکہ ہرممکن امداد بھی کی۔
حالیہ پاک،بھارت جنگ (ماسوائے چند مودیوں) کے پوری پاکستانی قوم متحدہوئی۔ عین ایران،اسرائیل جنگ نے مذہبی فرقوں میں بٹی ہوئی پاکستانی قوم کو اسرائیل مخالفت نقطہ پر اک مرتبہ پھر سے متحد کردیا ہے، پاکستان کی تمام مذہبی جماعتوں نے کھل کر اسرائیل کی مخالفت اور ایران کی حمایت کا اعلان کیا ہے،جو نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ ورانہ فروعی مسائل اور اختلافات ہونے کے باوجود دنیا جہاں کے مسلمان بالخصوص پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کے دل بہت کشادہ ہیں۔ اسرائیل کی ایران پر ننگی جارحیت نے پوری اسلامی دنیا بالخصوص سعودیہ عرب کو ایران کا حمایتی بنا دیا ہے۔ تاریخی طور پر سعودیہ عرب اور ایران کے باہمی تعلقات ہمیشہ ہی سے تلخ رہے ہیں، مگر آج سعودیہ عرب لگی لپٹی کے بغیر کھل کر ایران کی حمایت میں سامنے آچکا ہے۔
افسوس آج بھی کچھ شقی القلب افراد ابھی تک سوشل میڈیا پر مسلکی اختلاف کی بناء پر ایران کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ ان عقل کے دشمنوں کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ایران کیساتھ بغض رکھنے کا سیدھا سیدھا سا مطلب اسرائیل کی حمایت ہے۔ اگر ہم پاکستانی، اسرائیل اور ایران جنگ میں ایران کی مخالفت محض مسلکی تفریق کی بنیاد پر کررہے ہیں تو یقینا گھٹیا ترین انسان کہلائیں گے۔ کیونکہ یہود و نصاریٰ آپکے خلاف ننگی جارحیت کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھتے کہ آپ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضوان اللہ تعالیٰ علیھیم اجمعین میں سے کس کو خلیفہ اول مانتے ہو۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ آپ یااللہ مدد، یارسول اللہ مدد، یاعلی مدد کا نعرے لگانے والے ہیں یا نہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ آپ ہاتھ باندھ کر نماز ادا کرتے ہیں یا ہاتھ کھول کر، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ آپ رفع یدین یا بغیر رفع یدین نماز ادا کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ دوران نماز بلند آواز سے آمین کہتے ہیں یا خاموشی سے، بلکہ انکے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمہ گو ہیں۔ کیا ہی شاندار منظر آنکھوں کو بھاتا ہے جب حرمِ مکی اور حرمِ مدنی میں ہر مسلک، ہرفرقے کا مسلمان آزادانہ اپنے طریقہ کے مطابق نماز اداکرتا ہے، کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اک پھولوں کا دستہ ہے جس میں مختلف رنگوں اور خوشبوؤں کے پھولوں کو پرودیا گیا ہو۔مگر افسوس اپنے اپنے دیس میں ہم مذہبی فرقہ پرستی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
یہ وقت ایران کے لئے بھی سوچنے سمجھنے کاہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں آپکا ساتھ کس نے دیا اور کون اسرائیل کی صفوں میں کھڑا نظر آیا۔ یقینی طور پر ایران کو احساس ہوچکا ہوگا کہ پاکستان کی قیمت پر بھارت کیساتھ محبت کی پینگیں بڑھانے کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ عالمی معاشی پابندیوں اور سفارتی تنہائیوں کے شکار ایران کی ہمت و بہادری کو شاباش دینے کو دل کرتا ہے کہ پچاس سے زائد اسلامی ممالک میں سے کسی ایک نے تو ہمت دیکھائی اور بدمعاش اسرائیلی ریاست کے سامنے سرنگوں ہونے کی بجائے سر اُٹھا کر مقابلہ کرنے کی جرات کی۔ ایرانی حملوں کے بعد اسرائیلی تنصبیات کی تباہی اور اسرائیلی حکام کی چیخ و پکار سے میرے سمیت ہر پاکستانی کا کلیجہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔بالکل ایسے ہی جب پاکستانی افواج کی جانب سے بھارتی فوجی تنصبیات پر حملوں کے وقت بھارتیوں کی چیخیں سن کرٹھنڈک محسوس ہوتی تھی۔
آج عالمِ اسلام کے پاس بہترین موقع ہے کہ آئیں اپنے فروعی، مسلکی مسائل چھوڑ کر متحد ہوجائیں ورنہ ایک ایک کرکے سب کی باری آئے گی۔ ایران اور سعودی عرب کو ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لئے پراکسی جنگوں کو ختم کرنا ہوگا۔کیونکہ بہت سے تجزیہ کاروں کے نزدیک مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دار یہ دونوں ریاستیں ہی ہیں جو ایک دوجے کو زیر کرنے کے لئے دہائیوں سے پراکسی جنگوں میں ملوث ہیں۔بلاشک و شبہ موجودہ صورتحال میں ایران بالکل تنہا نہیں ہے، پاکستان، سعودی عرب، روس، چین اور ترکیہ جیسے ممالک ایران کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ اس جنگ میں بدمعاش اسرائیلی ریاست کا غرور خاک میں مل جائے اور ایرانی سرخرو ہوجائیں۔ آمین ثم آمین
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
واپس کریں