محمد ریاض ایڈووکیٹ
کچھ عرصہ قبل تک وطن عزیز میں کسی بھی ناگہانی صورتحال میں تمام پاکستانی یک جان ہوجایا کرتے تھے چاہے بھارت کے ساتھ جنگ ہویا زلزلے، سیلاب جیسی قدرتی آفات۔ بلا رنگ و نسل، زبان اور صوبائیت ہم پاکستانی سیاست اورمذہبی اختلافات بھول کر اک دوجے کی مدد کیا کرتے تھے۔ افسوس کچھ عرصہ سے ہم پاکستانی یہ روایات چھوڑتے چلے جارہے ہیں۔ آج معاملہ ریاستی ہو، مذہبی ہو، معاشی ہومعاشرتی ہویا پھر بین الاقوامی ہم سب سے پہلے اپنا مسلک، اپنی سیاسی و مذہبی جماعت کے نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہیں پھرمعاملے کو پرکھتے ہیں۔ آپ میرے اس دعوے سے اختلاف کرسکتے ہیں مگر زمینی حقائق کو جھٹلا نہیں سکتے۔ ابھی حال ہی میں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے پاکستانی ریاست پر یلغار کی، پھر پاکستانی جواب نے نہ صرف بھارت کی بولتی بند کی بلکہ پوری دنیا میں اپنی طاقت، ہمت اور بہادری کو منوایا۔ مگر افسوس ہم پاکستانی اس معاملہ میں بھی بکھڑے ہوئے نظر آئے، کسی نے اس جنگ کو نورا کشتی قرار دیا تو کسی نے پاکستانی ریاست کی طاقت، حکمت عملی کا مذاق اُڑایا۔ اک مخصوص سیاسی جماعت سے وابستہ اندرون ملک اور سمندر پار پاکستانی یوٹیوبرز، سیاسی کارکنوں اور قائدین نے اس نازک موقع پر بھی اپنی بکواسیات جاری رکھیں، یہاں تک کہ بھارتی بولی بولتے دیکھائی دیئے۔ جنگ جیسے کٹھن اور مشکل مرحلے میں ان بدبختوں کے بیانات بھارتی میڈیا کی زینت بنتے رہے۔
اب آتے ہیں ایران اسرائیل جنگ کے موضوع پر تو آپ دیکھیں گے یہی خاص گروہ اپنی فتنہ انگیزی پھیلاتا دیکھائی دے رہا ہے۔ بھارتی چینلز پر پھیلائے گئے من گھڑت پروپیگنڈا کو اپنے ٹویٹس یا پھر وی لاگ کے ذریعہ پھیلانا ہو، یہی خاص طبقہ ریاست پاکستان کے ایران کے لئے ہر مثبت اقدام کو اپنے غلیظ پروپیگنڈا کے ذریعہ سبوتاز کرنے کی ہر ممکن کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ یادرہے آج پاک، ایران تعلقات جس قدر مضبوط ہیں شاید اس سے پہلے کبھی ماضی میں نہ تھے۔ ایران اسرائیل جنگ میں جہاں ایرانی ریاست ہر فورم یہاں تک کہ ایرانی پارلیمنٹ میں پاکستانی حمایت پرتشکر تشکر کررہی ہے، وہیں پر یہ بدبخت گروہ بھارتی بیانیئے کو پروان چڑھانے میں پیش پیش ہے۔ کبھی ایران کے خلاف پاکستانی سرزمین خصوصا فوجی اڈوں کے استعمال دوسرے لفظوں میں پاکستان کو اسرائیلی و امریکی سہولت کارقرار دینے کی خبروں کو پھیلارہے ہوتے ہیں تو کبھی بلوچستان میں دہشتگردوں کو معصوم قرار دینے کی بھونڈی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔
ایران اسرائیل جنگ میں کچھ مذہبی ٹچ دیکھاتے ہوئے جذباتی افراد بھی نظرآرہے ہیں۔ جنکے نزدیک ایران کی مخالفت محض انکے ساتھ مسلکی اختلاف ہے، ان جذباتی افراد کی عقل کو پچاس توپوں کی سلامی دینی چاہیے، جو ایران کی مخالفت کرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت میں چلے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ جذباتی افراد ایران اور اسرائیل کے درمیان چارٹ بنا کر تقابلی جائزے پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ مسلم امہ کو اسرائیل سے زیادہ ایران نے نقصان پہنچایا ہے۔ یاد رہے یہود و نصاریٰ جب کسی اسلامی ریاست پر حملہ آور ہوتے ہیں تو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس اسلامی ریاست کے مسلمان اہلسنت حنفی، شافعی، حنبلی، مالکی ہیں یا پھر اہل تشیعہ۔ فرقہ پرستی کو ہوا دینے والے ایسے جذباتی افراد کے لئے بس یہی دعا ہے کہ اللہ کریم ان کو ہدایت نصیب فرمائے، آمین۔
نجانے پاکستانیوں کی باہمی محبت، بھائی چارہ اور وطن سے محبت کہاں چلی گئی؟ معاملہ کوئی بھی ہو، ہم نے اپنی جماعت ہی کو فوقیت دینی ہے۔ اگر آج ہماری جماعت طاقتور حلقوں کیساتھ کھڑی ہے تو ہمیں وطن اوراسکی پالیساں بھی عزیز ہیں۔ دوسری صورت میں معاملات اُلٹ ہونگے۔ بہت پہلے عرض کیا تھا کہ وطن عزیز میں مذہبی فرقہ پرستی کی نسبت سیاسی فرقہ پرستی اور شخصیت پرستی بہت آگے نکل چکی ہے۔ ہمارے لئے ہماری جماعت، لیڈرشپ وطن عزیز سے اُوپر جاچکی ہے۔
یاد رہے ماضی میں وطن عزیز کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں کراچی سے وابستہ اک سیاسی جماعت کے قائدپیش پیش ہوا کرتے تھے اور پاکستان کے معاشی دل یعنی کراچی کے پُرامن ماحول کو تہس نہس کردیا کرتے تھے۔ الحمدللہ، پاکستانی ریاست کی حکمت عملی اور طاقت نے اس فتنہ کا منہ بخوبی بند کیا ہوا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حالات میں ایسے شرپسند عناصر جو پاکستانی ریاست کے برخلاف سرگرم عمل ہیں، انکی سرکوبی کے لئے پاکستانی قوانین کے تابع سخت ترین اقدامات لئے جائیں اور انکو قرار واقعی سزائیں دلوائی جائیں۔ اسی طرح پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں چاہے وہ حکومتی بینچوں پر براجمان ہوں یا پھر حزب اختلاف بینچوں پر، ہر جماعت کی عقلمند اور محب وطن لیڈرشپ کو آگے آنا ہوگا، ان جماعتوں پر لازم ہوگا کہ ہر صورت ریاست پاکستان کو مقدم رکھیں، پارٹی منشور اور قواعد و ضوابط کو ازسر نوء ترتیب دیں۔ کہ ایسے معاملات جنکی بدولت ریاست پاکستان کمزور ہو ان معاملات پر پروپیگنڈا کرنے والے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کی حوصلہ شکنی کریں اور اپنی جماعتوں نے نکال باہر کریں۔
کاش ہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں کی لیڈرشپ ہم وطنوں کوتوڑنے اور فرقہ واریت کی بجائے جوڑنے کا درس دیں۔ کیونکہ اس وقت ریاست پاکستان کو قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔
واپس کریں