توہین مذہب کمیشن اور وکلائے صفائی کو نہ سننے کا شکوہ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
میں محمد ریاض ایڈووکیٹ ہائیکورٹ بحیثیت اک مسلمان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وبارک وسلم کی ختم نبوت پر پکا ایمان رکھتا ہوں اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 میں درج مسلم اور غیر مسلم کی تعریف اورتعزیرات پاکستان کی دفعات 295 تا298 کو صدق دل سے قبول کرتا ہوں۔ اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ کسی فرد یا گروہ چاہے مسلم ہویا غیر مسلم اسکو انبیاء کرام اور مقدسات کی توہین کرنے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی اور یہ کہ آئین و قانون میں درج بالا آرٹیکل اور دفعات کوکسی صورت ختم یا ان میں تخفیف نہیں ہونی چاہیے۔ تمہید کا مقصد قارئین کو یہ بتاناضروری ہے کہ راقم کا کسی صورت ایسے فرد، گروہ یا تنظیم سے تعلق نہیں ہے جو انسداد توہین مذہب و مقدسات قوانین کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ گذشتہ ہفتہ کی سب سے بڑی خبر '' توہین مذہب کے مقدمات کی تحقیقات، اسلام آباد ہائیکورٹ کا 30روز میں کمیشن تشکیل دینے کا حکم'' نے کئی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔ کمیشن بنانے کے عدالتی حکم نامے کے بعد بہت سے حلقوں خصوصا علماء کرام کی جانب سے یہ بات سننے دیکھنے میں آئی کہ مقدمے کے فریق ثانی یعنی وکلائے صفائی جیسا کہ جان محمد خان، سید انتخاب حسین شاہ، علی چنگیزی، سجاد اکبر عباسی، آصف نواز، اسد عباس راجہ، محمد ظہیر، محمد نواز شیخ، شائستہ چوہدری، ملک مظہر جاوید، راؤ عبدالرحیم، فہد اظہر، عادل عزیز قاضی اور سجاد اکبر عباسی کومکمل طور پر سنا ہی نہیں گیا جبکہ فریق اول یعنی مدعیان کے وکلاء جیسا کہ محمد عثمان نواز، حافظ آصف علی تمبولی، ہادی علی چٹھہ، ایمان زینب حاضر، نثار احمد شاہ اور راجہ طلحہ سرفراز کو مکمل طور پر سناگیا۔
مجھ سمیت بہت سے پاکستانی اس دعویٰ کہ'' وکلائے صفائی کو ٹھیک طرح سے سنا ہی نہیں گیا'' کو درست تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ راقم سمیت پاکستانیوں کی کثیر تعداد نے اس مقدمہ کی سماعتیں براہ راست دیکھ رکھی ہیں۔ عدالت کا کمیشن بنانے کا حکم نامہ درست ہے یا غلط؟ اس موضوع پر الگ سے بحث کی جاسکتی ہے۔ بہرحال بطور مسلمان، پاکستانی شہری اور قانون و صحافت کے ادنیٰ سے طالبعلم میں سمجھتا ہوں کہ '' وکلائے صفائی کو نہیں سنا گیا'' کے دعوے پر قلم ضرور اُٹھاؤں، کیونکہ ہر وہ شخص بشمول معزز علماء کرام جس نے اس مقدمہ کی ستمبر 13 تاجولائی 15 عدالتی سماعتوں کوپڑھا، سنا یا دیکھا نہیں، انکے لئے حقائق نامہ منظر عام پر لانا بے حد ضروری ہے تاکہ معاشرے میں ہیجانی کیفیت پیدا نہ ہو۔ کیونکہ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ علماء کرام کو فریق دوم کو موقع نہ دینے والی گمراہ کُن خبریں پہنچائی جارہی ہیں۔ غلط معلومات کے بارے میں اللہ کریم نے سورۃ الجرات میں ہم مسلمانوں کے لئے واضح ہدایات دی ہیں۔ جیسا کہ '' اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کوانجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے''۔ آئیے اس مقدمہ کی تاریخ وار سماعتوں کا احوال ملاحظہ فرمائیں۔
یہ مقدمہ فریق اول کی جانب سے 11ستمبر 2024 اسلام آباد ہائیکورٹ پیش کیا گیا اور پہلی سماعت 13 ستمبرکو ہوئی اور متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری ہوئے اور اس مقدمہ کو2667/2024 نمبر الاٹ کیا گیا۔ جبکہ42 سماعتوں کے بعد 15 جولائی 2025 کو کمیشن بنانے کا حتمی حکم جاری کیا گیا۔
اکتوبر 11: دوسری سماعت پر بینچ دستیاب نہ تھا۔
نومبر 01: فریق اول کی جانب سے مقدمہ کی جلدی سماعت کے لئے درخواست دی گئی۔
نومبر 28: فریق دوم کوجواب دعویٰ دینے لئے دوبارہ نوٹس جاری کئے گئے۔
جنوری 15: ڈی جی ایف آئی اے، آئی بی، چیئرپرسن این سی ایچ آر اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو پیش ہونے کے لئے سمن جاری کئے گئے۔
جنوری 17: ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے یہ رضامندی ظاہر کی ہے کہ وہ حکومت سے پوچھ کر بتائیں گے کہ آیا حکومت کمیشن کی تشکیل کے لیے راضی ہے یا نہیں۔
جنوری 23: فریق اول کے وکیل نے عملدرآمد کے لئے ضمنی درخواست دائر کی۔
جنوری 31: دونوں فریقین نے اپنے دلائل دیئے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزارت داخلہ کمیشن بنانے پر راضی ہے، لیکن عدالت سے ٹی اوآرز اور اس کمیشن کے ممبران کے حوالے سے کچھ وضاحتیں اور رہنمائی سے مطلوب ہیں۔ اسی سماعت پر عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ اگلی پیشی سے پہلے وفاقی کابینہ کے سامنے کمیشن کی منظوری کے لئے سمری پیش کی جائے۔ یاد رہے اسی دن کمیشن بنانے کا پہلا آرڈر بھی جاری ہوا تھا۔
فروری 28: فریق دوم کے راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ و دیگر افراد نے مقدمے میں فریق بنائے جانے کی درخواست و دلائل دیئے جوعدالت نے قبول کرلئے۔
مارچ 14: راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ و دیگر کی جانب سے دو نئی درخواستیں جمع کروائی گئیں۔ اس سماعت میں فریق اول کی جانب سے عابد ساقی ایڈووکیٹ اور فریق دوم کی جانب سے کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ کے دلائل سنے گئے۔
مارچ 21: فریق دوم کی جانب سے کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ 45 منٹس تک دلائل دیتے رہے، اسی دوران فریق دوم کی جانب سے آئے افراد نے عدالت کے اندر اور باہر گلی میں ہلڑبازی اور شور شرابا شروع کردیا اور تین مرتبہ عدالتی کاروائی روکنا پڑی۔چنانچہ جج صاحب نے مقدمہ کی براہ راست نشریات کا حکم جاری کر دیا۔ یہ حکم بھی سنا دیا کہ اب سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی۔
مارچ 25: فریق دوم کے وکیل سجاد اکبر عباسی نے دلائل پیش کئے۔
مارچ 26: فریق دوم کے وکیل قاضی عادل عزیز کو سنا گیا۔
مارچ 27: فریق دوم کے وکیل زاہد آصف نے اپنی معروضات مکمل کیں۔
اپریل 7: مقدمہ اچانک ڈویژنل بینچ میں شفٹ کر دیا گیا۔ ڈویژنل بینچ نے حیرت کا اظہار کیا اور کیس سماعت کے لیے واپس سنگل بینچ کے پاس بھیج دیا۔
مئی 15: فریق دوم کے راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ اور اسد عباس راجہ ایڈووکیٹ کو سنا گیا۔
مئی 19: فریق دوم کے اسد عباس راجہ ایڈووکیٹ نے اپنی معروضات مکمل کیں۔عدالت نے کہا کہ گزشتہ حکم میں کہا گیا تھا کہ اگر فریق دوم کے کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ آج پیش نہ ہو سکیں تو وہ اس کی بجائے اپنی تحریری گذارشات دائر کر سکتے ہیں۔کیونکہ انہوں نے اس کیس میں فریق دوم کے پہلے وکیل کے طور پر اپنے دلائل کافی حد تک مکمل کر لیے تھے۔
مئی 20: فریق دوم کے راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل جاری رکھے۔
مئی 21: فریق دوم کے راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل مکمل کئے۔ اسکے بعد این سی ایچ آر کے وکیل انس مشہود کو سنا گیا۔
مئی 22: این سی ایچ آر کے وکیل انس مشہودنے اپنی گذارشات مکمل کر لی۔
مئی 26: فریق اول کی جانب سے عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ نے اپنی معروضات پیش کرنا شروع کیں۔ اور فریق دوم کے ر اؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ کو سنا گیا۔
مئی 27: فریق اول کے عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل جاری رکھے۔ اور فریق دوم کے ر اؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ کو سنا گیا۔
مئی 29: فریق اول کے عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل جاری رکھے۔ اور فریق دوم کے ر اؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ کو سنا گیا۔
جون 2: فریق اول کے عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل جاری رکھے۔
جون 3: فریق اول کے وکلاء کی عدم دستیابی کی بناء پر سماعت نہ ہوسکی۔
جون 4: فریق اول کے عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل جاری رکھے۔
جون 5: فریق اول کے عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل مکمل کئے۔فریق دوم کے راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ کو سنا گیا۔
جون 16: فریق اول کے ہادی علی چٹھہ ایڈووکیٹ نے دلائل شروع کئے۔
جون 17: فریق اول کے ہادی علی چٹھہ ایڈووکیٹ نے دلائل جاری رکھے۔
جون 18: فریق اول کے ہادی علی چٹھہ ایڈووکیٹ نے دلائل جاری رکھے۔فریق دوم کے راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ کو سنا گیا۔
جون 19: فریق اول کے ہادی علی چٹھہ ایڈووکیٹ نے دلائل جاری رکھے۔فریق دوم کے راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ کو سنا گیا۔
جون 24: فریق اول کے ہادی علی چٹھہ ایڈووکیٹ نے دلائل مکمل کئے۔
جون 25: فریق اول کے راجہ طلحہ ایڈووکیٹ نے دلائل مکمل کئے۔
جون 30: فریق اول کے حافظ آصف علی تمبولی ایڈووکیٹ نے دلائل جاری رکھے۔
جولائی 1: فریق اول کے حافظ آصف علی تمبولی ایڈووکیٹ نے دلائل جاری رکھے۔
جولائی 2: فریق اول کے حافظ آصف علی تمبولی ایڈووکیٹ نے دلائل مکمل کئے۔ فریق دوم کے راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے حلف نامہ بھی جمع کروایا۔
جولائی 3: فریق اول کی ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے دلائل شروع کئے۔
جولائی 7: فریق اول کی ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے دلائل مکمل کئے۔
جولائی 8: این سی ایچ آر کے وکیل مسٹر انس کو سنا گیا۔
جولائی 10: فریق دوم کے جان محمد ایڈووکیٹ نے دلائل دیئے۔
جولائی 15: فریق دوم کے جان محمد ایڈووکیٹ نے دلائل دیئے اور اسی دن کمیشن بنانے کا حتمی حکم نامہ جاری کردیا گیا۔
یاد رہے اس تحریر میں درج بالا سماعتوں میں فریق دوم کے غیر وکلاء حضرات جو بغیر عدالتی اجازت کے روسٹرم پر آکر دلائل دینا شروع کردیتے تھے اور اسی طرح ایف آئی اے، آئی بی، زونگ موبائل کمپنی، یوفون موبائل کمپنی،جاز موبائل کمپنی، ٹیلی نار موبائل کمپنی و دیگر سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے وکلاء اور آئی ٹی کے ماہرین کے تفصیلی بیانات و بحث کا ذکر نہیں کیا۔
نوٹ: کسی دوست کو ابھی بھی شک ہو کہ فریق دوم یعنی راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ گروپ کو سنا ہی نہیں گیا تو ایسے دوستوں کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ کی ویب سائٹ پر موجود کیس کی تاریخ کے حساب سے آرڈرز شیٹ موجود ہیں۔
واپس کریں