دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آہ ، مولانا طارق جمیل ،آہ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
مانسہرہ اجتماع کے بعد مولانا طارق جمیل اور انکے چاہنے والوں کی جانب سے دین ِاسلام کی ترویج کے لئے سرگرم عالمگیر تبلیغی جماعت کے اُصول و ضوابط، منتظمین اور عمائدین کے خلاف سرِعام بیان بازی نے یہ واضح کردیا ہے کہ غیر سیاسی و شخصیت پرستی سے پاک سمجھی جانے والی جماعت خدانخواستہ دھڑے بندی اور شخصیت پسندی کا شکار ہونے جارہی ہے۔جسکی بدولت تبلیغی جماعت کو ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے۔ ساری زندگی اللہ سے ہوتا ہے مخلوق سے کچھ نہیں ہوتا اور صبر واستقامت کا درس دینے والے مولانا نے روایتی سیاستدانوں کی طرز پر تبلیغی جماعت کے عمائدین و منتظمین پر توپوں کے منہ کھول دیئے۔میں، میں، میرے بغیر ایسے تکبرو رعونت بھرے الفاظ کا استعمال، مولانا کی خودپرستی کو آشکار کررہی ہے۔
مولانا کے چاہنے والوں کے نزدیک مولانا کو ریاستی اداروں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کرپٹ حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔ جبکہ حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے۔ بات اگر کرپٹ حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق اُٹھانے کی جائے تو مولانا طارق جمیل ہمیشہ ہر حکمران اور طاقتور شخصیت کے در پر نظر آئے چاہے وہ پرویز مشرف ہوں، محمد نواز شریف، شہباز شریف ہوں، قمر جاوید باجوہ ہوں یا پھر عمران خان۔ ''توڑ نہیں جوڑ'' کے علمبردار طارق جمیل فتنہ عمرانیہ میں ایسے مبتلا ہوئے کہ اپنے درینہ ساتھی نعیم بٹ جو خود مولانا موصوف کی باتوں سے متاثر ہو کر توبہ تائب ہو کر تبلیغ کے کام میں لگے ان سے پچیس سالہ رفاقت صرف بناء پر توڑ دی کہ انہوں نے حمزہ شہباز جیسے کرپٹ بندے سے ملاقات کرلی تھی۔ مولانا صاحب، بغیر کسی سرکاری عہدہ براجمان ہوئے عمران خان دور میں رینجراور ایلیٹ فورس کی سیکورٹی کس قانون و قائدے کے تحت لے رہے تھے؟ کیا یہ کرپشن نہ تھی؟
انسانی حقوق کی بات کی جائے تو عمران خان دور میں بی بی سی کا صحافی بار بار سوال کرتا رہا کہ مولانا صاحب، پاکستان میں جبری گمشدگیوں، انتخابات میں دھاندلی ایسی انسانی حقوق کی پامالیوں پر مذمت کریں گے تو مولانا کا یہی جواب تھا کہ دیکھیں جی ہم تبلیغی جماعت والے سیاست سے دُور رہتے ہیں، ہم کسی کی مذمت نہیں کرتے ہم ہمیشہ مثبت بات کرتے ہیں، منفی بات نہیں کرتے، اچھائی کو اتنا بیان کریں کہ بُرائی چھپ جائے اورموجودہ حالات، سب اللہ سے دُوری کا نتیجہ ہے۔مگر آج آپ عمران مخالف سیاسی قیادت حتی کہ تبلیغی جماعت کے متنظمین کے خلاف کُھل کر سیاسی بیان بازی کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان کرپشن مقدمات کی بناء پر جیل یاترہ پر ہیں تو مولانا صاحب، آج آپکو حکمران بھی کرپٹ نظر آتے ہیں اور مینڈیٹ چوری بھی نظر آرہا ہے۔ مولانا صاحب، اس وقت آپ تمام تر سیاسی ومخالفانہ بیانات تبلیغی جماعت کے کن اُصول و ضوابط کے تحت دے رہے ہیں؟
مولانا صاحب، آپکو عمران خان کا ریاست مدینہ ثانی کا نعرہ دل کو ایسا بھایا۔ لیکن کبھی آپ نے سوچا ایک پلے بوائے جسکی غیر اخلاقی سرگرمیوں کی داستانیں کیلیفورنیا سے لیکر لندن اوردہلی تا سڈنی تک ثابت شدہ ہیں۔اس پلے بوائے کی جائز اور ناجائز اولادیں یہودیوں کے گھر میں پل رہی ہوں، کیا ایسا شخص ریاست مدینہ ثانی بناسکتا ہے؟ ایک ایسا شخص جو عقیدت کے نام پر قبر پر سجدہ ریز ہوجائے، ایک ایسا توہم پرست شخص جو اک عورت کا مریدبن جائے پھر اپنی پیر صاحبہ کاتقریبا تین دہائیوں پر محیط ازدواجی رشتہ تڑوا کر اپنی پیر کیساتھ دوران عدت شادی کرلے۔ مولانا صاحب، کیا ایسا شخص نیک سیرت ہوسکتا ہے؟ اور کیا ایساشخص پاکستان کو ریاست مدینہ ثانی بناسکتا ہے؟ یاد رہے ریاست مدینہ وہ تھی جو خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنائی جس میں ہرقسم کے شرک، توہم پرستی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کی کسی صورت گنجائش موجود نہ تھی۔ مولانا صاحب آپکو پردے و نقاب کے پیچھے چھپی بشری بی بی المعروف پنکی پیرنی پاکستان کی سب سے نیک سیرت خاتون نظرآتی تھیں، مگر کبھی آپ نے سوچا کہ ایک ایسی توہم پرست، قبر پرست عورت جو اپناتین دہائیوں کا ازدواجی تعلق، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں والا گھرانہ صرف اپنے مرید یعنی عمران خان کی محبت پر قربان کردے وہ خاتون کس صورت نیک سیرت ہوسکتی ہے؟
تبلیغی جماعت کے بنیادی اصولوں ''اطاعتِ امیر اور مشورہ پر عمل'' انتہائی اہم ہیں اور مشورہ پر تبصرہ کام میں میں بے برکتی کا باعث ہوتا ہے۔ تبلیغی دوست ان اصولوں کو سنت نبوی کہتے ہیں۔ مولانا موصوف اپنی تبلیغی زندگی میں ہزاروں بار یہ اصول بیان کرتے رہے ہونگے۔ لیکن موصوف مانسہرہ اور اس سے قبل راولپنڈی میں ان اصولوں کی دھجیاں اڑاتے دیکھائی دیئے۔ درحقیقت مولانا تبلیغی جماعت کی منہج کو عرصہ دراز سے چھوڑ چکے ہیں۔حضرت یوسف علیہ السلام اور لائبہ حُورکے متعلق کئی من گھڑت قصے کہانیوں کی بناء پر متعدد مواقعے پر مولانا کو ہزمیت اور معافی مانگنے جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ارشاد بھٹی کیساتھ انٹرویو میں لائبہ حُور کے متعلق سوال پر بخاری شریف کی بے حُرمتی نے آپکی رعونت، تکبر، خودپسندی کو بے نقاب کردیا تھا۔
آج مولانا موصوف کا دفاع کرتے ہوئے آپکو کوئی عالم دین نظر نہیں آئے گا۔ ہاں صرف ایک طبقہ انکا بھرپور دفاع کر رہا ہے جسکو صحافی رضی دادا مودیئے کہتے ہیں۔مولانا صاحب، آپ کھل کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلیں یا پھر تبلیغی جماعت کے لبادے میں چھپنا چھوڑ دیں۔ مولانا صاحب، ابھی بھی وقت ہے، عمر کے آخری حصہ میں مزید ذلت سمیٹنے سے بہتر ہے کہ آپ رنگ بازی، منافقت اور ڈرامے بازی کی بجائے اللہ کے سامنے توبہ کریں، تکبر، رعونت پر صدقِ دل سے عوام الناس کے سامنے معافی مانگیں تاکہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی سرخُرو ہوسکیں۔
واپس کریں