
آزاد کشمیر ہائی کورٹ نے کوٹہ سسٹم کے حوالے سے اپنے آج دیئے گئے فیصلہ کے مطابق زیرِ نظر رِٹ پٹیشنز کو آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین کے آرٹیکل 44 کے تحت سنا گیا۔ اگر قانون/اسمبلی کا کوئی ایکٹ آئین کی کسی شق، بشمول بنیادی حقوق، کی خلاف ورزی کرے، تو اس عدالت کو آرٹیکل 44 کے تحت حاصل اختیارات کے تحت ایسے قانون کو کالعدم قرار دینے کا اختیار حاصل ہے۔ اسی طرح، اگر کوئی قانون بے جا اختیارات یا صوابدیدی اختیارات فراہم کرے جنہیں امتیازی طور پر استعمال کیا جا سکے، تو وہ بھی کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
مندرجہ بالا وجوہات کے خلاصے کے طور پر، مرکزی رِٹ پٹیشن نمبر 2551/24 کو منظور کیا جاتا ہے اور تمام وہ نوٹیفکیشنز اور قانونی دفعات جو آزاد جموں و کشمیر میں سول سروسز (گزیٹڈ و نان گزیٹڈ آسامیوں) اور تعلیمی اداروں میں کوٹہ سسٹم کے نفاذ و اطلاق سے متعلق ہیں، کو آئین کے منافی اور اسلامی احکامات کے خلاف قرار دیا جاتا ہے۔
لہٰذا، انہیں فوری طور پر کالعدم قرار دیا جاتا ہے، اور تمام متعلقہ حکام کو یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ:
آزاد جموں و کشمیر کی سول سروسز کی تمام آسامیوں پر اوپن میرٹ پر ریاستی باشندگان کی بھرتی کو یقینی بنائیں؛
آزاد جموں و کشمیر کے تمام تعلیمی اداروں میں، بشمول وہ نشستیں جو وفاقی یا پاکستان کی مختلف صوبائی تعلیمی اداروں میں مخصوص کی گئی ہوں، اوپن میرٹ پر داخلے یقینی بنائیں۔
رِٹ پٹیشنز نمبر 1900/24، 2881/24، اور 206/25 میں درخواست گزاروں نے کسی نہ کسی طور پر مورخہ 04.01.2013 کے نوٹیفکیشن کے پیرا 6 پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا تھا، جبکہ پٹیشن نمبر 1878/22 میں 1989 کے مہاجرین کے لیے مختص 6٪ کوٹے پر عملدرآمد کی استدعا کی گئی تھی۔
چونکہ ان تمام معاملات کا فیصلہ پٹیشن نمبر 2551/24 میں کر دیا گیا ہے، لہٰذا ان درخواستوں پر مزید کوئی کارروائی ضروری نہیں، اور انہیں ریکارڈ پر رکھ کر نمٹا دیا جاتا ہے۔
جبکہ پٹیشن نمبر 114/16 میں موجود تنازع کا حل فیصلے کے پیرائے 33 میں دیا جا چکا ہے، لہٰذا یہ پٹیشن خارج کی جاتی ہے(
فیصلہ میں کہاگیا کہ
کوٹہ سسٹم آئین کے منافی اور اسلامی احکامات کے خلاف ہے۔
دوسرا پاکستان میں تعلیمی اداروں سمیت جہاں کوٹہ سسٹم رائج ہے وہاں پر بھی اوپن میرٹ پر داخلے یقینی بنانے کا کہا گیا ہے۔
میں کوئی قانونی ماہر تو نہیں لیکن کچھ سوالات و تحفظات اس فیصلے کو پڑھ کر ذہن میں آتے ہیں کہ
@ضلعی کوٹے کی بجائے اوپن میرٹ پر بھرتی سے اب صورتحال یہ ہوگی کہ کچھ عرصہ بعد دور دراز کے علاقوں کے نوجوانوں میں احساس محرومی بڑھے گا اس پر باقاعدہ کراچی اور بلوچستان کی طرح احتجاج ہوگا۔
@جہاں تک 1989 کے بعد کے مہاجرین کے 6 فیصد کوٹے کی بات ہے تو اس پر بعض آسامیوں پر امیدوار ہی میسر نہیں آتے تھے۔میڈیکل میں 2004 یا اس قبل مہاجرین کے لئے کوئی 200 شاید نشستیں وفاقی حکومت کی جانب سے میڈیکل کالجز میں مقرر کی گئی تھیں۔
@لیکن آزاد کشمیر کی سطح پر اوپن میرٹ پر ملازمتوں اور ایڈمشنز سے ایک نیا کٹا کھل جائے گا۔جہاں کوئی تگڑا منسٹر ہوگا اس کا اوپن میرٹ اس کی برادری،پھر ووٹر،پھر حلقہ ہوگا پھر اس کی جماعت ہوگی۔اگر آپ کے ہاں ایک یکساں تعلیمی نظام رائج ہے پھر تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ اوپن میرٹ (وہ بھی اگر میرٹ پر عمل ہوتا ہو) تو یہ انصاف ہے۔اسلامی احکامات کے بھی مطابق ہے۔لیکن ایسا نہیں ہے۔
@سوال یہ ہے کہ جن کے پاس وسائل ہیں وہ پاکستان کے بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کا مقابلہ بھیڈی،لیپہ،عباسپور،سہڑہ،نکیال اور نیلم سمیت دیگر علاقوں کے دور دراز کے علاقوں میں تعلیم حاصل کرنے والے کیسے کریں گے؟
کیا یہ اسلامی احکامات کے مطابق ہے؟ یہ کوٹہ سسٹم بعض صورتوں میں ریاست کو جوڑے رکھتا ہے۔اس لئے یہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
پاکستان میں اوپن میرٹ کی وجہ سے پسماندہ علاقوں میں احساس محرومی بڑھنے،بااثر شخصیات کی جانب سے اس کے غلط استعمال کے بعد احتجاج سے سندھ میں شہری اور دیہی کوٹہ مقرر کرنا پڑا۔بلوچستان کی بیوروکریسی میں کم شرح کے بعد اس کے لئے بھی کوٹہ مقرر کرنا پڑا ہے۔
واپس کریں