ریاست کیخلاف جرائم کی سزاؤں پر مفاہمت کی کوئی گنجائش نہیں

اپوزیشن کی سیاست میں حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے کی آئین و قانون میں ہرگز ممانعت نہیں بلکہ اسے جمہوریت کا حسن قرار دیا جاتا ہے البتہ قانون ہاتھ میں لینے پر سیاسی قائدین اور کارکنوں کے خلاف ماضی میں بھی مقدمات درج کئے جاتے رہے ہیں اور منتخب ارکان بشمول وزراء اعظم اپنی رکنیت سے نااہل ہو کر اپنے اعلیٰ مناصب سے بھی فارغ ہوتے رہے ہیں۔ مگر ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی احتجاجی تحریک کے دوران حساس ریاستی اداروں تک پر حملے کر کے وہاں توڑ پھوڑ کی گئی ہو اور ملک کی سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کی اہم شخصیات کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ اس بدتمیزی اور گالم گلوچ کلچر کی بنیاد بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی قیادت نے رکھی اور اس کلچر کو اپنی مقبولیت کا پیمانہ بنا لیا چنانچہ اس جماعت کے کارکن بھی اسی کلچر کے قالب میں ڈھل گئے۔ یہی بدتمیزی کلچر انہیں 9 مئی 2023ء کو عمران خاں کی گرفتاری کے خلاف ردعمل کے اظہار کیلئے جی ایچ کیو راولپنڈی، کور کمانڈر ہاؤس لاہور اور گوجرانوالہ، پشاور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں حساس اداروں اور شہداء کی یادگاروں کے اندر تک لے آیا جہاں انہوں نے توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی انتہاء کر دی اور اپنے تئیں یہ سمجھ لیا کہ وہ آئین و قانون سمیت کسی بھی ریاستی اتھارٹی کے تابع نہیں ہیں اور ملک میں جیسے چاہیں غدر مچا سکتے ہیں۔ یہ اقدام اور اس نوعیت کی سیاست براہ راست ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے مترادف تھی اس لئے اگر ان جرائم کی فوری گرفت نہ کی جاتی تو اس سے ریاستی اتھارٹی کے اتنے کمزور ہونے کا تصور اجاگر ہوتا کہ کوئی بھی فرد، گروہ یا سیاسی و مذہبی جماعت جب چاہے قانون ہاتھ میں لے کر فساد برپا کردے۔ قانون کے تحت یقیناً کسی کو ریاست سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دی جا سکتی ورنہ تو معاشرے میں آئین و قانون کی عملداری کا کوئی تصور ہی باقی نہ رہے۔ اسی تناظر میں 9 مئی 2023ء اور 26 نومبر 2023ء کے واقعات پر ریاستی اتھارٹی حرکت میں آئی اور ان واقعات میں براہ راست ملوث افراد اور اس کی منصوبہ بندی کرنے والے پی ٹی آئی کے قائدین اور عہدے داروں بشمول عمران خاں کے خلاف متعلقہ قانون کے تحت مقدمات درج کرکے ان پر قانون کی عملداری لاگو کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان میں ریاستی ادارے کے ملوث افراد فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی زد میں آئے جن میں سے بعض سزا پا چکے ہیں اور بعض کے خلاف فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اسی طرح ان مقدمات میں ملوث ملزمان جرم ثابت ہونے پر انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے بھی سزا پا رہے ہیں اور جرم ثابت نہ ہونے پر بری بھی ہورہے ہیں جن میں مخدوم شاہ محمود قریشی، ان کے بیٹے زین قریشی اور سابق وفاقی وزیر فواد چودھری بھی شامل ہیں۔ بے شک سزائیں پانے والوں میں پی ٹی آئی کے اہم عہدے دار اور منتخب ارکان بھی شامل ہیں تاہم ریاست کے خلاف جرائم ثابت ہونے پر ملنے والی سزاؤں کو کسی سیاسی انتقامی کارروائی سے ہرگز تعبیر نہیں کیا جاسکتا نہ ان سزاؤں پر سیاست کے دروازے کھولنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ ایسے سنگین جرائم کی آئندہ کیلئے روک تھام سخت سزاؤں سے ہی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
بشکریہ نوائے وقت
واپس کریں