
امریکی وائیٹ ہاؤس کی انتظامیہ نے شام پر حملہ کرنے کی بنیاد پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو پاگل قرار دے دیا ہے۔ دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی فوج کی درندگی جاری ہے، ایک روز میں مختلف علاقوں میں فضائی حملوں میں مزید 120 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق شمالی غزہ میں اقوامِ متحدہ کی امدادی گاڑیوں کے منتظر شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس سے 92 فلسطینی شہید جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔ جنگ میں شہدا کی مجموعی تعداد 58 ہزار 895 تک جا پہنچی جبکہ ایک لاکھ 40 ہزار 980 فلسطینی زخمی ہو چکے۔دوسری جانب برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، اٹلی، ڈنمارک، جاپان اور کینیڈا سمیت 25 ممالک نے غزہ میں فوری غیر مشروط اور پائیدار جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ مشترکہ بیان میں امدادی سامان کی تقسیم کے دوران فلسطینیوں کے سفاکانہ قتل کی شدید مذمت کی گئی اور امداد کی باعزت ترسیل پر زور دیا گیا۔
امریکی سرپرستی میں اسرائیل کا جنگی جنون اس نہج تک پہنچ چکا ہے کہ اب عالمی سطح پربھی اسکے پاگل پن کو روکنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود بھی اسرائیل کے جنگی جنون سے نالاں نظر آتے ہیں مگر اسکے جنونی ہاتھ کو روکنے پر آمادہ نہیں ہو رہے اور وہ اب بھی کھل کر اسرائیل کی سرپرستی کررہے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کی جنگ بندی کے بعد صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ دو ہفتے میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کروادی جائیگی‘ لیکن ان کا یہ دعویٰ بھی اسرائیل نے ہوا میں اڑا دیا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ امریکہ کو چھوٹے ملکوں میں انسانی حقوق کی پامالی تو نظر آجاتی ہے لیکن جہاں اسکی سرپرستی میں دنیا کا سب سے بڑا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے‘ ہر روز سینکڑوں فلسطینیوں کو شہید کیا جا رہا ہے‘ اسکی طرف امریکہ نے مسلسل آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی آشیرباد نے ہی اسرائیل کو پاگل پن میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ اگر امریکہ چاہے تو اسے شٹ اپ کال دیکر ایک ہی دن میں راہ راست پر لا سکتا ہے اور اسے فی الوقت دو ریاستی حل پر بھی آمادہ کر سکتا ہے لیکن امریکہ اس طرف نہیں آتا جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ وہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطین اور ایران جیسے اپنے ناپسندیدہ ملکوں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے یا ان ملکوں میں حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسی اپنی کٹھ پتلی قیادتیں لا کر وہاں اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ اس کا یہ ایجنڈا دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب دھکیل سکتا ہے جو لامحالہ اس کرۂ ارض کی تباہی کی نوبت لا سکتی ہے۔
واپس کریں