دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شکلیں نہیں کرتوت دیکھیں
No image آئی ایم ایف سے سود پر قرضے لینا اور پھر سود کو ادا کرنے کے لیئے پٹرول،گیس اور بجلی مہنگی کر نا کوئی حکومت کا کوئی معاشی یا اقتصادی کمال نہیں،ایسا معاشی کمال تو نیازی بھی اپنے دور حکومت میں دکھاتا رہا ہے اور جس کا انجام و نتیجہ ہم سب تا حال بھگت رہے ہیں۔ہم تو سمجھے تھے کہ نواز شریف کے ادوار حکومت کی طرح موجودہ والے بھی اقتدار میں آ کر نئے روز گار کے مواقع پیدا کریں گے، غیر ملکی سرمایہ کاری ہو گی، مقامی پیداوار بڑھانے کی پالیسیاں ترتیب دیں گے، بے روزگاروں کے لیئے مختلف اسکیموں کا اجراء اور پانی کے ڈیم بنائیں گے، افسر شاہی اور حکومتی اخراجات اور اشرافیہ کو دی جانے مراعات خاتمہ کی کوشش کریں گے اور آئی ایف ایف کو خیر آباد کہ دیا جائے گا،لیکن ہمیں کیا پتہ تھا کہ موجودہ والے اقتدار میں رہنے کے اس راز کو پا گئے ہیں کہ اشرافیہ، اشٹبلشمنٹ اور آئی ایم ایف کا رانجھا راضی رکھو تو سب خیر اور اچھا کی رپورٹ ہو گی۔گو کہ یہ فارمولا وقتی طور پر کارگر ثابت ہو تا ہے لیکن اپنے آپ کو عوامی نمائندہ یا سیاست دان سمجھنے والوں کے لیئے ایسا فارمولا بل آخر سیاسی قبر ثابت ہوتا ہے جس پر فاتحہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں آتا۔حکومتی بکواسیات: ایک بکواس یہ کہ”وجہ“ عالمی منڈی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔اگر یہی”وجہ“ ہے تو پھر جب عالمی منڈیوں میں قیمتیں کم ہوتی ہیں تو ہمیں سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے؟
دوسری بکواس کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے لیکن کیسے؟ پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کو بڑھاتا ہے کیونکہ یہ ٹرانسپورٹ، صنعتی پیداوار اور روزمرہ اشیاء کی قیمتوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ حکومتی مالیاتی خسارے یعنی حکومتی اللے تللے پورے کرنے کا آسان طریقہ ہے۔
اپنے محبوب سیاسی لیڈر کی شان میں ضرور قصیدہ گوئی یا مدح سرائی کیجئے لیکن زومببز کے بجائے زندہ دل اور باضمیر انسانوں بن کر رہیئے۔ سادہ لوح عوام سے انہیں سہولیات دینے کے نام پر اقتدار میں آ کر عوام کش پالیسیاں بنانے کا انجام کیسا درد ناک ہوتا ہے، تاریخ پڑھ کر دیکھ لیجئے اور ساتھ میں لیڈر اور ایڈمنسٹریٹر میں فرق جاننے کی کوشش بھی کیا کیجئے۔
واپس کریں