دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایران: عالمی طاقتوں کی بند گلی۔خالد خان
No image عالمی اور علاقائی طاقتیں جو اب تک جنگ کو اپنی بالادستی کے تحفظ اور دائرۂ اثر کی توسیع کا آزمودہ ہتھیار سمجھتی رہی ہیں، ایران–اسرائیل جنگ کے بطن سے پیدا ہونے والی نئی صورتِ حال نے ان سب کو ایک بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس بند گلی میں نہ تو جنگ کی طرف واپسی ممکن ہے اور نہ امن کی طرف پلٹنے کا راستہ کھلا ہوا ہے۔ گزشتہ چند عشروں سے جو کچھ "جمہوریت"، "انسانی حقوق"، "مذاہب کے احترام"، "امن" اور "تہذیبوں کے درمیان مکالمے" کے نام پر پیش کیا جاتا رہا — وہ سب محض سامراجی تسلط کے چہرے پر لگی ہوئی نقابیں تھیں۔ اصل مقاصد ہمیشہ سے صرف دو رہے ہیں: معاشی اجارہ داری اور عالمی کنٹرول۔
یہ حقیقت اب کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہو چکی ہے کہ ان تمام تصورات کو، جنہیں عالمی قدریں سمجھا جاتا رہا، محض سیاسی و معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ دنیا کو جمہوریت سکھانے والے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے درحقیقت دنیا بھر میں آمریتوں، بادشاہتوں، اور فوجی حکومتوں کی سرپرستی کی ہے۔ اور جو قوتیں خود کو کمیونزم اور سوشلزم کا پرچم بردار کہتی رہیں — چین اور روس — وہ بھی سامراجی رویوں میں کسی طور کم نہیں رہے۔ ان سب طاقتوں نے مذہب، فرقہ واریت اور لسانیت کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ اجرتی جنگجو، پراکسی ملیشیائیں، اور نظریاتی قتل و غارت اب غیر مؤثر ہتھیار ثابت ہو چکے ہیں۔
ایران–اسرائیل جنگ نے اس تزویراتی دائرے میں وہ رخنہ ڈال دیا ہے جسے بند کرنے کے لیے اب براہ راست جنگ یا نیا عالمی معاہدہ ہی ایک واحد راستہ بچا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور اس جیسے دیگر عالمی ادارے نہ صرف اپنی وقعت کھو چکے ہیں، بلکہ یہ اب محض امریکہ کے طفیلی ادارے محسوس ہوتے ہیں۔ اگر دنیا آج نئے سرے سے بین الاقوامی مکالمے، عالمی توازن اور طاقت کی تقسیم پر سنجیدہ غور و فکر نہیں کرتی، تو یقیناً ہمیں نئے جغرافیے، نئی عالمی صف بندیاں، اور شاید نئی عالمی تباہی کا سامنا ہوگا۔ سوال صرف یہ نہیں کہ یہ جغرافیے کیا ہوں گے — بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ان میں انسانی بقا ممکن ہو سکے گی؟
یہ کہنا بھی اب کوئی خیالی بات نہیں رہی کہ دنیا کا کوئی ملک تیسرے عالمی نیوکلیائی جنگ کے لیے تیار نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود، طاقتوں نے جس نہج پر حالات کو پہنچا دیا ہے، وہاں سے واپسی کا کوئی باعزت راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ ایران–اسرائیل جنگ کی موجودہ شکل میں کسی بھی فریق کی فتح، پوری دنیا کی ہار بن جائے گی۔ کیونکہ جو بھی جیتے گا، وہ عالمی طاقت کے توازن کو مکمل طور پر بدل دے گا — اور جو ہارے گا، وہ اپنے ساتھ اپنے اتحاد، معاہدے، اور اثرات کا نظام بھی لے ڈوبے گا۔
اگر ایران جیتتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکہ اور مغربی بلاک کی تزویراتی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ عرب دنیا — جو صدیوں سے ایران کے ساتھ مسلکی، ثقافتی اور سٹریٹجک تناؤ میں مبتلا رہی ہے — وہ بھی عجم کے ہاتھوں شکست کھا جائے گی۔ ایران کی جیت نہ صرف اسے علاقائی قیادت دے گی، بلکہ اس کی تاریخی شناخت، انقلابی نظریات، اور ثقافتی اہداف کو ایک نئی عالمی حیثیت میں تبدیل کر دے گی۔ عرب و عجم کے درمیان کھینچی گئی وہ خونی لکیر جو فرقہ وارانہ تصادمات سے رنگی ہوئی ہے، مزید شدت اختیار کر جائے گی۔ اگر ایران مرکزِ اقتدار بن گیا تو پاکستان کے لیے بھی نئی صف بندی، نئی سفارت، اور نئی مجبوریوں کا آغاز ہوگا۔
اور اگر اسرائیل جیتتا ہے تو "گریٹر اسرائیل" کا خواب — جو اب تک صرف دائیں بازو کے نعرے میں محدود تھا — عالمی سیاست کا حقیقی نقشہ بن جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ریاستیں اپنے اثر و رسوخ، سلامتی، اور شناخت کھو بیٹھیں گی۔ عرب دنیا کے لیے یہ جنگ پہلے ہی غیر متوازن اور یکطرفہ فیصلہ بن چکی ہے — چاہے کوئی بھی جیتے، ہار صرف عرب ممالک کی ہوگی۔
پاکستان پر اس جنگ کے اثرات کسی بھی دوسرے ملک سے مختلف ہوں گے۔ اگر ایران جیتا تو پاکستان کو علاقائی توازن میں ثانوی کردار ادا کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب اگر اسرائیل کامیاب ہوتا ہے تو پاکستان پر سفارتی، عسکری، اور حتیٰ کہ داخلی سلامتی کے سنگین خطرات منڈلائیں گے۔ ایران کی فتح چین اور روس کے لیے کوئی انہونی بات نہیں ہو گی — دونوں ممالک پہلے ہی عسکری، تجارتی اور سیاسی سطح پر ایران کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھتے ہیں۔ چین کے لیے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اپنی جگہ، مگر اگر ایران عالمی طاقت کے طور پر ابھرتا ہے تو چین بہت جلد ایران کو ترجیحی اتحادی کے طور پر اپنائے گا۔
اور یہیں سے اصل نقطہ ابھر کر سامنے آتا ہے: یہ جنگ اتفاقی نہیں، بلکہ منصوبہ بند ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کو اس جنگ میں دھکیلا گیا ہے — جہاں سے واپسی ممکن نہیں، اور آگے بڑھنے کا مطلب خود اپنی معاشی و عسکری موت ہے۔ چین اور روس نے پہلے ہی عالمی سطح پر نئے معاشی ماڈلز، مقامی کرنسیوں میں تجارت، اور ایک متبادل بین الاقوامی نظام کی بنیاد رکھ دی ہے۔ BRICS اتحاد اس کا واضح مظہر ہے۔ ایران کی ممکنہ فتح ان بنیادوں کو رسمی شکل دے گی — اور اقوامِ متحدہ سمیت تمام مغربی ادارے غیر متعلق ہو جائیں گے۔
اب سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ دنیا اس بند گلی سے نکلنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کرتی ہے: براہِ راست عالمی تصادم یا باہمی مفاہمت پر مبنی نیا عالمی معاہدہ؟ یہ فیصلہ دنیا کو جلد ہی کرنا ہوگا — ورنہ وقت یہ فیصلہ خود کر دے گا۔
واپس کریں