امریکہ‘ ایران اور فلسطین کے خلاف اسرائیل کو کھلی فوجی کمک فراہم کر رہا ہے

اس وقت پوری دنیا میں صرف امریکہ ہے جو اسرائیلی بربریت پر اسکے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو ٹیلی فون کرکے باور کرایا کہ ایران امریکہ کے ساتھ ڈیل کرلے ورنہ اسکے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ انکے بقول ایران پر اگلے حملے زیادہ سنگین ہونگے۔ ایران کے پاس جوہری بم کسی صورت قبول نہیں۔ ضرورت پڑنے پر امریکہ اسرائیل کی مدد کریگا۔ ایران کو جوہری ہتھیاروں سے روکنا امریکہ کی ترجیح ہے۔ دوران گفتگو سعودی شہزادہ محمد بن سلمان نے اسرائیل کی ایران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
جمعۃ المبارک کی علی الصبح اسرائیل نے ایران کے دارالحکومت تہران پر جس وحشیانہ اندز میں اور بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فضائی حملے کئے وہ پوری دنیا کی نگاہوں کے سامنے ہے اور ان حملوں میں ایران کو فوجی اور دفاعی سطح پر جو بھاری نقصان ہوا وہ بھی عالمی برادری کے بخوبی علم میں ہے۔ ایران کو اسرائیل کی اس بربریت کا جواب دینے کا پورا حق حاصل تھا چنانچہ اس نے اسرائیل کے ہاتھوں گہرے زخم کھانے کے باوجود جمعۃ المبارک کی شب اسرائیل پر بھرپور جوابی وار کیا ہے اور امریکہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات بھی منسوخ کر دیئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران کی جانب سے سینکڑوں ہائبر سپرسونک میزائل اسرائیل کے فوجی اڈوں‘ ایئربیسز اور سینئر حکام کے اجلاس پر مارے گئے جن میں متعدد اسرائیلی فوجی اور شہری ہلاک و زخمی ہوئے۔ ایران نے اپنے جواب کے پہلے مرحلے کو ’’سخت سزا‘‘ اور دوسرے مرحلے کو ’’وعدۂ صادق‘‘ کا نام دیا اور کہا کہ ہم صیہونیوں کو بھاگنے نہیں دیں گے۔ ایران نے اسرائیلی نیوکلیئر سائٹ میمونہ پر بھی حملہ کیا۔
اس وقت ایران اور اسرائیل دونوں حالت جنگ میں ہیں جن کے مابین جنگ میں شدت پیدا ہوتی ہے تو یہ عین اسی طرح عالمی ایٹمی جنگ کی نوبت لاسکتی ہے جس طرح پاکستان اور بھارت کے مابین دس مئی کو چند گھنٹے کی فضائی جنگ کے دوران ہی امریکی صدر ٹرمپ نے اس جنگ کو ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوتا محسوس کرلیا تھا اور خود میدان میں آکر دونوں ممالک کو جنگ بندی پر متفق کرلیا تھا جس کا وہ گزشتہ ایک ماہ سے مسلسل کریڈٹ بھی لے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ ایک جانب تو خود پر علاقائی اور عالمی امن کے چیمپئن کا لیبل لگوانے کے خواہش مند ہیں اور دوسری جانب وہ اسرائیل اور بھارت کی بیٹھ ٹھونک کر اور انہیں فلسطین اور پاکستان کیخلاف جنگ کے تسلسل کیلئے جدید اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرکے انکے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن تاراج کرانے کے راستے خود نکال رہے ہیں۔ اسرائیل نے ایران پر حملہ تو سراسر امریکی ڈکٹیشن پر اور اسکے فراہم کردہ میزائلوں اور گولہ بارود کی کمک کے ساتھ کیا ہے۔ ورنہ بھلا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ جو اسرائیل گزشتہ اڑھائی سال سے غزہ پٹی کو فلسطینیوں کے قبرستان میں تبدیل کرنے کی جنگی جنونی کارروائیاں کر رہا ہے‘ وہ یکایک ایران پر بھی حملہ آور ہو جائے۔ اس حوالے سے اگر ٹرمپ کی سعودی ولی عہد کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کا جائزہ لیا جائے تو اس سے ایران پر اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندی میں سراسر امریکی ہاتھ ہی کارفرما نظر آتا ہے جو اس امر کا عکاس ہے کہ اسرائیل کے ذریعے امریکہ نے خود ایران پر حملہ کیا ہے۔ یہ درحقیقت امریکہ‘ بھارت‘ اسرائیل کا وہ ہنود و یہود گٹھ جوڑ ہے جو مسلم دنیا کا اتحاد توڑنے اور اسے ایک ایک کرکے صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے قائم ہوا ہے چانچہ آج کی صورتحال اسی تناظر میں مسلم دنیا کے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے اور اپنے وسائل مشترکہ طور پر بروئے کار لا کر اسلام دشمن ہنود و یہود گٹھ جوڑ پوری قوت کے ساتھ ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملے کے خلاف پاکستان‘ سعودی عرب‘ قطر‘ عمان‘ سمیت آج پوری مسلم دنیا متحد نظر آتی ہے اور ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کے عزم کا اظہار کیا جارہا ہے تاہم آج محض مذمتی قراردادوں اور مذمتی بیانات کی نہیں‘ ایران‘ پاکستان اور فلسطین کے ساتھ عملی طور پر اسی طرح کھڑے ہوںے اور انہیں دشمن کے مقابلے میں ہر قسم کی فوجی دفاعی کمک پہنچانے کی ضرورت ہے جس طرح امریکہ‘ ایران اور فلسطین کے خلاف اسرائیل کو کھلی فوجی کمک فراہم کر رہا ہے۔ مسلم قیادتیں مصلحتوں کے لبادے اتار کر باہم متحد نظر آئیں گی تو تمام الحادی قوتوں کے ہوش خود ہی ٹھکانے پر آجائیں گے۔
واپس کریں