دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عربوں کی بے آواز تالیاں - تھنک ٹینک رپورٹ از عارف انیس
No image طاقت کی دنیا میں، بیانات کی کوئی قیمت نہیں ہوتی؛ قیمت صرف مفادات اور نتائج کی ہوتی ہے۔ آج خلیجی ممالک ایران پر اسرائیلی حملوں کی عوامی سطح پر مذمت کر رہے ہیں، لیکن یہ الفاظ کی جنگ صرف دنیا کو دکھانے کے لیے ہے۔ حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور تلخ ہے۔
عوامی سطح پر مذمت کے شعلے، اور بند کمروں میں اسرائیل کے لیے خاموش تالیاں۔
یہ منافقت نہیں، یہ اس خطے کی مجبور حقیقت ہے جو اپنی بقا کے لیے دوسروں پر انحصار کرتا ہے۔ یہ ممالک ایک ایسی دلدل میں پھنسے ہیں جہاں ایک طرف ایران کا غضب ہے تو دوسری طرف امریکی مفادات کی زنجیریں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایران کمزور ہو، کیونکہ ایک کمزور ایران ان کے علاقائی اثر و رسوخ کے لیے بہتر ہے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو اس کی پہلی چنگاری ان کے اپنے تیل کے کنوؤں اور شیشے کے محلات کو جلا کر راکھ کر دے گی۔
ایک دہائی قبل یہی سعودی عرب تھا جو امریکہ کو ایران، یعنی "سانپ کے سر" کو کچلنے پر اکسا رہا تھا۔ آج وہی سعودی عرب مفاہمت اور مذاکرات کی بات کر رہا ہے۔ یہ تبدیلی کیوں آئی؟
یہ تبدیلی اس وقت آئی جب 2019 میں سعودی تیل تنصیبات پر حملہ ہوا اور انہیں احساس ہوا کہ امریکی "سیکیورٹی چھتری" میں سوراخ ہیں۔ انہیں سمجھ آ گئی کہ جنگ کی صورت میں واشنگٹن بیانات تو دے گا، لیکن ان کے شہروں کو ایرانی میزائلوں سے بچانے نہیں آئے گا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب انہیں اپنی کمزوری کا حقیقی ادراک ہوا۔
آج ان کا سب سے بڑا خوف یہ نہیں کہ ایران پر کیا گزرے گی، بلکہ یہ ہے کہ اگر ایران نے جوابی کارروائی میں ان کی سرزمین پر موجود امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا تو ان کا کیا بنے گا؟ وہ ایک ایسی بساط کے مہرے بن چکے ہیں جہاں کھیل کسی اور کا ہے، لیکن قربانی ان کی دی جا سکتی ہے۔
محمد بن سلمان کے کھربوں ڈالر کے معاشی منصوبے اور دبئی کی چمک دمک جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل وہ کام کر دے جو وہ خود نہیں کر سکتے—ایران کو لگام ڈالنا—لیکن اس خاموشی اور سکون کے ساتھ کہ خطے کا امن اور ان کا کاروبار متاثر نہ ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ خلیجی ریاستیں چاہتی ہیں کہ سانپ مر جائے، لیکن لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ وہ چاہتی ہیں کہ ایران کمزور ہو، لیکن اس عمل میں لگنے والی آگ ان کے اپنے دامن تک نہ پہنچے۔ یہ ایک ایسی خواہش ہے جو عالمی سیاست کی بے رحم حقیقت میں شاید ہی کبھی پوری ہوتی ہو۔
واپس کریں