ایمپائر کی واپسی اور اکیسویں صدی کے عالمی نظام کی نئی تشکیل

(تحریر : زاہد انصاری )اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں دنیا ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑی ہے جہاں بین الاقوامی طاقت کا توازن بدل رہا ہے، عالمی ادارے کمزور پڑ چکے ہیں، اور وہ نظام جسے امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم کیا تھا، اب خود امریکہ کے رویے سے زوال پذیر ہو چکا ہے۔ امریکی جریدے فارن پالیسی نے اپنے حالیہ مضمون میں یہ اعتراف کیا ہے کہ اب چین یا روس اس عالمی نظام کے لیے سب سے بڑا خطرہ نہیں بلکہ خود امریکہ کی اس نظام کو قائم رکھنے کی خواہش میں کمی اصل چیلنج بن چکی ہے۔ یہ ایک غیر معمولی اقرار ہے ۔ کیونکہ ماضی میں اکثر یہ مؤقف اختیار کیا جاتا رہا ہے کہ یا تو چین اس بحران کا حصہ ہے یا پھر اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے ۔اور کبھی کبھار دونوں الزامات ایک ساتھ عائد کیے جاتے تھے۔ لیکن اب خود مغربی ادارے یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ اصل مسئلہ بیرونی چیلنجز سے زیادہ داخلی بے راہ روی اور تضادات کا ہے۔
امریکہ ایک طویل عرصے تک دنیا کو ایک عالمی نظام دینے کا دعوے دار رہا ہے جس کی بنیاد جمہوریت، انسانی حقوق، آزاد تجارت اور قانون کی بالادستی پر تھی۔ لیکن زمینی حقائق اس دعوے کے برعکس نکلے۔ افغانستان کی جنگ ہو یا عراق کی مداخلت، لاطینی امریکہ کی حکومتوں کی تبدیلی ہو یا افریقہ میں فوجی اتحادوں کی پشت پناہی ۔امریکہ اکثر تنازعات میں شامل ہوا مگر ان کے بعد کے استحکام کے لیے کوئی پائیدار سیاسی منصوبہ پیش نہ کر سکا۔ افغانستان سے اچانک انخلا، جس میں کسی دیرپا امن یا سب فریقوں کی شمولیت پر مبنی فریم ورک کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی، اس بات کی نمایاں مثال ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کس قدر سطحی اور وقتی مفادات پر مبنی ہو چکی ہے۔
امریکی امداد کا معاملہ بھی اسی پالیسی کی توسیع ہے۔ معاشی امداد کو ہمیشہ مغربی تصورات اور شرائط سے مشروط رکھا گیا ۔جس میں سرمایہ داری کے مخصوص ماڈل، لبرل اصلاحات، اور انسانی حقوق کی مغربی تعریف شامل تھیں۔ جن ممالک کے سماجی و تاریخی سیاق و اسباق ان تقاضوں سے میل نہیں کھاتے تھے، انہیں ناکام ریاستوں یا اصلاحات سے انکاری گردانا گیا۔ نتیجتاً معیشتیں غیر فطری انداز میں ڈھالی گئیں، مقامی ادارے کمزور ہوئے، کرپشن پھیلی اور امریکہ مخالف جذبات کو فروغ ملا۔ مگر امریکی عوام کو ہمیشہ یہی بتایا گیا کہ ان کا ملک دنیا کے لیے خیرخواہی کا ذریعہ ہے، حالانکہ زمینی حقائق اس کے برعکس تھے۔
یہی تضاد اس وقت اور نمایاں ہو جاتا ہے جب عسکری حکمت عملی کو سفارتی ذرائع پر ترجیح دی جاتی ہے۔ رونن فیرو کی کتاب (وار آن پیس)کے مطابق، امریکی خارجہ پالیسی میں سفارت کاری کو بتدریج نظر انداز کر کے عسکری اتحادوں اور دفاعی اداروں کو فوقیت دی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کے مختلف خطے خاص طور پر جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ طویل مدتی مذاکرات اور سیاسی حل کی بجائے فوجی حل کی بھینٹ چڑھتے گئے۔ عسکریت، تباہی اور بیگانگی نے وہاں جڑیں پکڑ لیں جہاں پہلے کبھی امید کی کرن تھی۔
اس پس منظر میں اگر ہم دنیا کے مجموعی منظرنامے کو دیکھیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پرانے نوآبادیاتی تصورات نے نئی شکلوں میں جنم لیا ہے۔ امریکی اور مغربی قیادت نے جہاں براہِ راست تسلط قائم نہیں رکھا، وہاں مقامی اشرافیہ، مالیاتی اداروں، اور بیوروکریسی کو بطور "ایجنٹ" استعمال کر کے ایک ایسا ماڈل تخلیق کیا ہے جسے ہم “ایجنٹ در ایجنٹ کا سامراجی نظام” کہہ سکتے ہیں۔ اس نظام میں مقامی حاکم طبقہ، جو بظاہر قومی مفاد کا نمائندہ ہوتا ہے، درحقیقت بین الاقوامی مالیاتی ایجنڈے کے تابع ہوتا ہے۔ یہ نوآبادیات کی جدید ترین شکل ہے جہاں بندوق کی جگہ قرض، معاہدات، اور تعلیمی و ثقافتی اثرات کو ہتھیار بنایا گیا ہے۔
اسی ماڈل کا ایک اور چہرہ معلوماتی نوآبادیات ہے۔ تعلیمی نصاب، میڈیا، اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے ایسے عالمی بیانیے مسلط کیے جا رہے ہیں جن میں ترقی کی تعریف مغربی ماڈل سے منسلک ہے، جمہوریت صرف انتخابی عمل تک محدود ہے، اور عالمی انصاف کا مطلب مغرب کی سلامتی ترجیحات ہے۔ ایسے میں اقوامِ عالم کی فکری آزادی بھی پابند ہوتی جا رہی ہے۔
ان حالات میں نئی عالمی صف بندیاں بھی جنم لے رہی ہیں۔ چین، روس، ایران، برازیل اور افریقی ریاستیں اب اپنے مفادات کی بنیاد پر نئے اتحاد تشکیل دے رہی ہیں۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، روس کا علاقائی اثر، اور افریقی ممالک کی طرف سے نوآبادیاتی تعلقات سے نجات کی کوششیں اس بات کا اشارہ ہیں کہ دنیا اب یک قطبی نہیں رہی۔ ابھرتے ہوئے یہ "نئے ایمپائر" روایتی نوآبادیات کی طرح ہتھیاروں سے نہیں بلکہ ڈیجیٹل کنٹرول، معاشی انحصار، اور مقامی اتحادوں سے کام لے رہے ہیں۔ ان میں سے بعض شاید زیادہ مہلک ثابت ہوں کیونکہ ان کا تسلط خاموش اور غیر مرئی ہوتا ہے۔
دوسری طرف، عوامی سطح پر ایک نیا شعور بھی جنم لے رہا ہے۔ افریقی براعظم میں فرانس مخالف مظاہرے، برکینا فاسو اور مالی میں فوجی حکومتوں کی نوآبادیاتی بیانیے سے بغاوت، لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کی واپسی، اور ایشیا میں خودمختاری کی نئی تحریکیں یہ سب اس بات کی علامت ہیں کہ سامراجی تسلط کے خلاف ایک نیا محاذ کھل رہا ہے۔ اب سوال صرف یہ نہیں رہا کہ عالمی نظام کو کون چلا رہا ہے، بلکہ یہ بھی اہم ہے کہ عوام اور ریاستیں اس نظام کے خدوخال کو کیسے دیکھ رہی ہیں: کیا وہ انہیں اپنے مفادات کے خلاف سمجھتی ہیں، یا نجات کا راستہ تصور کرتی ہیں؟
یہ کہنا شاید قبل از وقت ہو گا کہ دنیا ایک نئے ایمپائر دور میں داخل ہو چکی ہے، مگر یہ حقیقت اب ناقابلِ انکار ہے کہ جیسے جیسے پرانی طاقتوں کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے، طاقت کے نئے مراکز ابھر رہے ہیں، جو ممکن ہے جیوپولیٹیکل اثر کے بجائے ڈیجیٹل اور سٹرٹیجک اتحادوں پر مبنی نئے ایمپائرز ہوں، لیکن ان کی روح استحصال پر بھی ہو سکتی ہے جیسےطاقتور کا کمزور پر تسلط اورمرکز کا حدود پر غلبہ۔ یا باہمی تعاون اور انسانیت کی ترقی پر بھی مبنی ہو سکتی ہے جیسا کہ عالمی سطح پر چائنہ اور روس کی نظریاتی سوچ اور ادارہ جاتی تشکیل کے مقاصد کو دیکھا جا سکتا ہے۔
ان تمام حقائق کی روشنی میں دنیا ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ کیا موجودہ عالمی قیادتیں اپنی ناکامیوں کا ادراک کر کے ایک منصفانہ اور پائیدار نظام کی طرف رجوع کریں گی؟ یا پھر وقت گزرنے کے ساتھ وہ اپنی ماضی کی روش پر قائم رہ کر ایک اور تباہ کن عالمی ڈھانچہ قائم کریں گی؟
آج کی دنیا ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑی ہے جہاں پرانی طاقتوں کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے اور نئی حقیقتیں سر اٹھا رہی ہیں۔ نوآبادیاتی ورثے، معاشی ناہمواری، اور سیاسی اجارہ داری کے خلاف بیداری کی لہریں مختلف خطوں میں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ ان حالات میں یہ فیصلہ اب دنیا کی قیادتوں اور عوام کے فہم و شعور پر ہے کہ وہ ان ابھرتی ہوئی حقیقتوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ۔کیا وہ انہیں اپنی موجودہ حیثیت و مفادات کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں، یا ایک ایسی نجات دہ راہ سمجھتے ہیں جو ایک زیادہ منصفانہ، خودمختار اور پائیدار عالمی نظام کی بنیاد رکھ سکتی ہے؟ یہی نقطۂ نظر اور فکرآئندہ کی عالمی سیاست، معیشت اور سماجی ساخت کو متعین کرے گا۔
واپس کریں