لازم ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں ایران کی حمایت کی جائے۔عمار علی جان

بدمعاش نسل کش صہونی ریاست نے غزہ، شام، یمن، اور لبنان کے بعد ایران پر بھی حملہ کردیا ہے۔ اس وقت کئی سینیر ایرانی فوجی افسران اور سائنسدانوں کی شہادت کی خبر گردش کررہی ہے۔ اس حملہ کا بظاہر مقصد ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا ہے۔ حالانکہ منافقت کی انتہا یہ ہے کہ اسرائیل امریکہ سمیت مغربی استعمار کے پاس یہ سب ہتھیار موجود ہیں۔ لیکن حقیقت میں اس حملے کا مقصد ایران کی عسکری قوت کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا ہے۔
1990 کی دہائی میں جب سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد فلسطین اور عرب دنیا کے ایک بڑے مزاحمتی حصے نے اسرائیل کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تو مزاحمت کار بلکل تنہا رہ گئے تھے۔ 2003 میں عراق اور 2011 میں شام اور لیبیا پر استعماری یلغار نے اس تنہائی کو شدید تر کردیا تھا۔ ایسے میں ایران نے پورے خطے میں مزاحمتی گروہوں کی حمائت شروع کی۔ حماس سے لے کر حزب اللہ اور ال انصار سے لے کر شام اور عراق میں مزاحمتی گروہوں کو مضبوط کیا۔ عالمی سطح پر کیوبا، وینیزویلا، روس، اور چین سمیت ان تمام ممالک کے ساتھ رابطے بڑھائے جو امریکی سامراج کی مخالفت کرنے کی جرآت رکھتے تھے۔
ایران سے کئی غلطیاں بھی ہوئیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر آج اسرائیل پریشان ہے تو اس کی وجہ ایران کی خطے میں مزاحمتی گروہوں کی حمایت ہے۔ اور یہ سب یکجہتی ایران نے اقتصادی پابندیوں کے باوجود دی ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ امریکی سامراج کا بحران شدید ہوچکا ہے اور وہ اپنی معاشی برتری بہت عرصے تک برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اگر کسی بھی دن اسرائیل کے لئے امریکہ اور یورپ کی مالی مدد ختم ہوگئی تو اس صہونی ریاست کو قائم رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ اسی لئے اسرائیل اور امریکہ کی خواہش اور حکمت عملی ہے کہ جتنی جلدی سامراج مخالف امریکی ریاستوں کو توڑا جاسکتا ہے، توڑ دیا جائے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی اسے چیلینج کرنے کے قابل نہ رہے۔
یہ ایک نئی دنیا کا ویژن ہے جس میں عسکری توازن کو خطرناک حد تک امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے حق میں موڑ دیا جائے گا۔ یہی کوشش پچھلے ماہ مودی نے پاکستان کے حوالے سے کرنے کی کوشش کی لیکن اس کو عزائم کو دفن کردیا گیا۔ اس لئے کسی بھی تجزئے کو اس حقیقت کو مدنظر رکھ کر بنانا چاہئے کہ ہمارے خطوں پر استعمار مسلسل جنگ نافذ کررہا ہے۔ جو ان معروضی حالات کو مدنظر رکھ کر تجزیہ نہیں کرے گا وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر سامراجی غلبے کی حمایت کرے گا۔ ان کی حالت ایران کو ان جلاوطن مسخروں جیسی ہوجائے گی جو واشنگٹن اور اسرائیل سے ایران میں عورتوں کے حقوق کے لئے مدد مانگتے ہیں۔ نیتن یاہو، مودی اور ٹرمپ جیسے غنڈوں کے لئے کسی کے حقوق اہم نہیں ہیں لیکن یہ اناپرست اور کم عقل مسخرے نفرت میں اپنے ہی ملک کے خلاف بیرونی طاقت کے استعمال کے حمایتی بن چکے ہیں۔
وہ لوگ جو غزہ کی نسل کشی کے باوجود آج بھی امریکہ یا اسرائیل یا ہندوستان سے انسانی حقوق کے لئے مدد مانگتے ہیں، ان کو ترقی پسند کہنا اس لفظ اور روایت کے ساتھ ظلم ہے۔ دوسری جانب ہماری حکومت کی حالت دیکھیں۔ ابھی چین کی مدد سے ہندوستان کو شکست دی ہے لیکن آج بھی خواہش امریکی خوشنودی حاصل کرنے کی ہے جس کے لئے فیلڈ مارشل امریکہ کا دورہ کررہے ہیں۔ امریکہ پورے دنیا پر صرف جنگ کرنے یا اس میں حصہ ڈالنے کا دباؤ ڈالتا ہے۔ اس میں چند لوگوں کے لئے Papa Johns تو بن سکتے ہیں لیکن ملک اور عوام کا کیا فائدہ ہوگا؟
خلیجی رہاستوں نے پہلے ہی اپنے خطے کے مفاد کو بیچ کر استعماری کیمپ کو جوائن کیا ہوا ہے۔ مغربی کیمپ کو چھوڑے بغیر پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے لئے پائیدار ترقی ناممکن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایران تعلقات ماضی میں خراب رہے ہیں اور اس میں دونوں ممالک کی غلطیاں رہی ہیں۔ لیکن آج جو ایران کے ساتھ ہورہا ہے، وہ کل ہمارے ساتھ بھی ہوگا۔ بہتر ہے اپنی باری آنے سے پہلے اپنی سمت درست کرلیں اور کسی قسم کی سہولت کاری سے باز رہیں۔
ایران نے جوابی حملے شروع کردیئے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس لڑائی کا نتیجہ کیا ہوگا۔ لیکن یہ جنگ ایران پر فلسطین کی حمایت کرنے کی وجہ سے مسلط کی گئی ہے۔ تمام اختلافات کے باوجود سب ترقی پسند دوستوں پر یہ فرض ہے کہ اس سامراجی اور صہونی جارحیت کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ ایران کے دفاع کے حق کو تسلیم کریں۔ اور کیونکہ یہ دفاع ایران کی عسکری قیادت ہی کرسکتی ہے، یہ بھی ہم پر لازم ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں کھل کر ایرانی افواج کی حمایت کریں۔ مزاحمت کاروں کی قربانیاں رائگاں نہیں جائیں گی اور ایک دن مشرقی وسطی اسرائیلی کینسر سے ضرور نجاد حاصل کرے گا ۔
مرگ بر اسرائیل!
واپس کریں