دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
امریکی ادارے کی رپورٹ: جموں کشمیر کے منقسم حصوں کی درجہ بندیوں میں حیران کن تبدیلی
No image (حارث قدیر)امریکی تحقیقی ادارے فریڈم ہاؤس نے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کو ’جزوی آزاد‘، پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کو ’غیر آزاد‘قرار دے دیاہے۔ حال ہی میں جاری کی گئی سالانہ رپورٹ’فریڈم ان دی ورلڈ2025‘ میں دنیا بھر کے 208ملکوں اور علاقوں میں جمہوری آزادیوں، سیاسی حقوق اور شہری آزادیوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ رواں سال کی رپورٹ میں بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی رینکنگ میں حیران کن طور پر مثبت پیش رفت دکھائی گئی ہے، جبکہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حیثیت میں کوئی نمایاں بہتری نہیں دکھائی گئی ہے۔
فریڈم ہاؤس کی اس رپورٹ میں سالانہ درجہ بندی ’آزاد‘، ’جزوی آزاد‘، اور ’غیر آزاد‘(فری، ناٹ فری، پارٹلی فر)کے طور پر کی جاتی ہے۔ 2025کی رپورٹ کے مطابق بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی درجہ بندی ’غیر آزاد‘ سے تبدیل کر کے ’جزوی آزاد‘ کر دی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سالانہ کارکردگی میں گزشتہ سال کی نسبت12پوائنٹس کی بہتری آئی ہے۔ گزشتہ سال 100میں سے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کا سکور 26پوائنٹس تھا، جبکہ 2025میں یہ سکور38پوائنٹس پر پہنچ چکا ہے۔
دوسری جانب پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی درجہ بندی گزشتہ سال کی طرح ’غیر آزاد‘ ہی برقرار رکھی گئی ہے۔ پوائنٹس میں البتہ ایک پوائنٹ کی بہتری دکھائی گئی ہے۔ گزشتہ سال یہ پوائنٹس100میں سے 29تھے، جو اس سال بڑھ کر 30ہو چکے ہیں۔
بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر
رپورٹ کے مطابق بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں بہتری کی وجوہات کے طورپر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات، آرٹیکل 370کے خاتمے اور ریاست کی دو حصوں میں تقسیم کے بعد جزوی طورپر منتخب مقامی حکومت کی بحالی کو قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک محدود دائرہ اختیار رکھنے والی مقامی اسمبلی بحال کی گئی ہے، جو مکمل خودمختاری تو نہیں رکھتی مگر مقامی نمائندگی کا آغاز قرار دی جا سکتی ہے۔ سیاسی عمل میں مقامی جماعتوں کی شمولیت کو بھی ایک وجہ قرار دیا گیا ہے۔ کئی مقامی جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لیا اور کچھ نمایاں کامیابیاں بھی حاصل کیں۔
رپورٹ ے مطابق گورنر کا تقرر اب بھی دہلی حکومت کرتی ہے، جو پالیسی اختیارات کا بڑا حصہ اپنے پاس رکھتا ہے۔ صحافیوں اور سیاسی کارکنوں پر دباؤ کی شکایات اب بھی موجود ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی محدود ہے اور انٹرنیٹ شٹ ڈاؤنز بھی ابھی تک ایک مسئلہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اگرچہ سیاسی عمل کی بحالی ایک مثبت قدم ہے، لیکن مکمل آزادی کے لیے مزید شفافیت، عدالتی آزادی اور شہری حقوق کی بحالی ضروری ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں جمہوری کمزوریوں، شہری آزادیوں کی محدودیت اور فوجی اثرورسوخ کو اہم مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔
انتخابی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کا اثر، پاکستان نواز امیدواروں کو ہی انتخاب لڑنے کی اجازت دینے، امیدواروں کی جانچ پڑتال اور انتخابی عمل میں فوجی اور وفاقی اثر کو اہم مسائل قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق صحافیوں کو دباؤ کا سامنا اور حساس موضوعات پر رپورٹنگ ممنوع ہے۔
رپورٹ کے مطابق خاص طور پر خودمختاری یا حقوق کی بات کرنے والے سیاسی کارکنوں کی گرفتاری یا نگرانی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ مقامی قانون ساز اسمبلی موجود ہے، بلدیاتی انتخابات کی سطح پر کسی حد تک سیاسی شمولیت موجود ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ خطہ جمہوریت سے مکمل طور پر دور ہے اور فوجی اثر کم کر کے آزاد عدلیہ اور صحافت کو مضبوط کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے، تاکہ شہری آزادیوں میں حقیقی بہتری آئے۔
رپورٹ میں انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنانے، صحافتی سنسرشپ اور احتجاجی پر پابندیوں کو ختم کرنے اور فوجی اثرورسوخ کے جمہوری اداروں پر غالب کردار کے خاتمے کی تجاویز دی گئی ہیں۔
دنیا بھر کی صورتحال
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جمہوری اور شہری آزادیوں میں مسلسل19ویں سال بھی کمی ہی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 60ملکوں میں آزادیوں میں کمی ہوئی ہے، جبکہ صرف34ملکوں نے بہتری دکھائی ہے۔
درجہ بندی میں سب سے بڑی کمی کویت(منفی 7)، تیونس(منفی6)، ال سلواڈور(منفی6)، پاکستان(منفی3)، بھارت (منفی 3) ریکارڈ کی گئی ہے۔ درجہ بندی میں بہتری بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر (مثبت12)، بھوٹان(مثبت5)، سری لنکا(مثبت4)، بنگلہ دیش(مثبت4) ریکارڈ کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی 60فیصد سے زائد آبادی ایسے ملکوں میں رہتی ہے جو ’جزوی آزاد‘ یا ’غیر آزاد‘ کی درجہ بندی میں آتے ہیں۔پاکستان اور بھارت کو بھی ’جزوی آزاد‘ کے درجے میں رکھا گیا ہے۔ دونوں ہی ممالک میں جمہوریت کا زوال جمہوری اداروں کی کمزوری اور حکومتوں کے مطلق العنان رجحانات کو وجوہات قرار دیا گیا ہے۔
فریڈم ہاؤس کیا ہے؟
یہ ایک معروف امریکی غیر سرکاری تنظیم ہے جو دنیا بھر میں جمہوریت، سیاسی آزادی، اور انسانی حقوق کے فروغ کے لیے کام کرتی ہے۔ اس ادارے کی بنیاد دوسری جنگ عظیم کے دوران رکھی گئی تھی اور یہ آج دنیا کی معتبر ترین جمہوریت ناپنے والی تنظیموں میں شامل ہے۔
فریڈم ہاؤس کا بنیادی مقصد جمہوری قدروں کا دفاع اور آمریت اور فاشزم کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔اب یہ تنظیم تحقیقی رپورٹس اور درجہ بندیاں جاری کرتی ہے۔ ’فریڈم ان دی ورلڈ‘ کے عنوان سے سالانہ رپورٹس اور درجہ بندیوں کا سلسلہ1973سے جاری ہے۔
یہ رپورٹ دنیا کے تمام ممالک اور اہم علاقوں کو آزاد، جزوی آزاد اور غیر آزاد کی درجہ بندی میں تقسیم کرتی ہے۔ ہر سال دنیا کے تقریباً 195 ممالک اور 15 سے زائد علاقوں (مثلاً کشمیر، غزہ، تبت، وغیرہ) کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے۔
درجہ بندی 100 پوائنٹس پر مشتمل ہوتی ہے، جن میں سیاسی حقوق کے لیے 40، جبکہ شہری آزادی کے لیے 60پوائنٹس مختص ہوتے ہیں۔
فریڈم ہاؤس پر تنقید
اقوام متحدہ، یورپی یونین، اور دنیا کے بڑے تحقیقی و صحافتی ادارے فریڈم ہاؤس کی رپورٹس کو معتبر اور تحقیقی معیار کی علامت مانتے ہیں۔کچھ ممالک، خصوصاً چین، روس، ایران، اور پاکستان، اس ادارے پر امریکہ نواز ایجنڈے کا الزام لگاتے ہیں۔تنقید کی جاتی ہے کہ رپورٹ میں بعض اوقات مغربی سیاسی مفادات کی جھلک نظر آتی ہے۔
بعض تجزیہ نگاروں اور حکومتوں (جیسے روس، چین، ایران، پاکستان) کا کہنا ہے کہ فریڈم ہاؤس امریکی خارجہ پالیسی کے مفادات کے تحت کام کرتا ہے اور امریکی اتحادیوں پر نرمی برتتاہے۔سعودی عرب، یو اے ای، یا مصر جیسے امریکی اتحادی ملکوں کو سخت درجہ بندی نہ دینے کا الزام بھی ادارے پر لگایا جاتا ہے۔ دوسری جانب امریکہ اور یورپی ملکوں کو ’آزاد‘ کا درجہ دیا جاتا ہے، چاہے وہاں شہری حقوق کی خلاف ورزیاں بھی موجود ہوں۔
یہ تنظیم امریکی حکومت، یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور بعض اوقات یو ایس ایڈ سے بھی مالی تعاون حاصل کرتی ہے۔ اسی مالی تعاون کی وجہ سے بھی اس کی غیر جانبداری کو مشکوک بھی قرار دیا جاتا ہے۔
تاہم فریڈم ہاؤس یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ان کی تحقیق مکمل طور پر آزاد اور تحقیقی اصولوں پر مبنی ہے اور ان کا مواد محققین کی آزاد تشخیص کا نتیجہ ہے۔
اعتراضات، الزامات اور تنقید کے باوجود فریڈم ہاؤس کی ساکھ اور تحقیق کا دائرہ کار اب بھی عالمی سطح پر وسیع اثر رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، صحافی، محققین اور انسانی حقوق کے کارکنان کے لیے یہ ایک اہم حوالہ ہوتا ہے۔ یہ رپورٹس بین الاقوامی پالیسی سازی اور میڈیا میں استعمال ہوتی ہیں۔
واپس کریں