دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بجٹ، خوشنما دعوے اور زمینی حقیقتیں
No image جی ڈی پی کی 2.7 فیصد شرح نمو، بظاہر منفی گروتھ سے واپسی کی علامت ہے، لیکن یہ اپنے مقررہ ہدف 3.6 فیصد سے واضح طور پر کم ہے۔مہنگائی کی شرح 4.6 فیصد ظاہر کی، جو کہ عالمی معیار کے مطابق کافی حد تک قابلِ قبول دکھائی دیتی ہے لیکن جب وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ دیکھی جائے تو اس میں عوام کے لیے خوش کن خبر نہیں بلکہ چشم کشا حقائق پوشیدہ ہیں، کپاس، چاول، گندم، مکئی اور گنے کی پیداوار میں کمی واضح ہے۔
سرمایہ کاری کے حوالے سے حکومت نے سعودی عرب، عرب امارات، قطر اور دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں کا دعویٰ کیا تھا، مگر اب تسلیم کیا جا رہا ہے کہ یہ اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔ سیاسی غیر یقینی، مہنگائی، بدانتظامی اور عدالتی عدم استحکام جیسے عوامل نے بیرونی سرمایہ کاری کو روک رکھا ہے۔
معاشی ترقی کا اصل پیمانہ یہ نہیں کہ جی ڈی پی میں کتنا اضافہ ہوا یا سٹاک مارکیٹ کہاں تک پہنچی، بلکہ یہ ہے کہ کیا عام شہری کی زندگی میں آسانی آئی؟ کیا وہ سستی روٹی خرید سکا؟ کیا کسان کو اس کی محنت کا صلہ ملا؟ کیا بیروزگار نوجوان کو روزگار ملا؟اقتصادی سروے میں وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کی گئی تصویر خوش کن ضرور ہے، مگر اس میں کئی زمینی حقیقتیں نظر انداز کی گئی ہیں۔
معیشت کی بہتری صرف اعداد و شمار میں نہیں، بلکہ عام آدمی کی زندگی میں جھلکنی چاہیے۔ حکومت کو اپنی کامیابیوں پر زور دیتے ہوئے ان ناکامیوں کی بھی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے جنہوں نے عوام کو معاشی بے یقینی، مہنگائی اور بیروزگاری میں مبتلا رکھا ہے۔
واپس کریں