
ورلڈ بینک گروپ 2024 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک قانونی بے ضابطگی ہمیں 190 میں سے ان 50 ممالک کی فہرست میں رکھتی ہے، جہاں خواتین کو اپنے غیر ملکی شوہروں کو شہریت دینے کے مساوی حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ یہ امتیازی قانون اب ملک میں ایک نیا بڑا بحران کھڑا کرنے کے در پے ہے۔ 2023 میں شروع کیے گئے پاکستان کے غیر قانونی غیر ملکیوں کی وطن واپسی کے منصوبے کے نتیجے میں اپریل 2025 تک 850,000 سے زیادہ افغانوں کو ملک بدر کیا گیا ہے، جس سے افغان شوہروں والی پاکستانی خواتین اپنے ٹوٹے خاندان کی اذیت اور بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔
پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951 کے سیکشن 10 کے تحت پاکستانی مرد سے شادی کرنے والی غیر ملکی خاتون پاکستانی شہریت کے لیے درخواست دینے کی اہل ہے لیکن یہ حق پاکستانی خواتین سے شادی شدہ غیر ملکی مردوں کو حاصل نہیں ہے۔ اس شق میں خاص طور پر کہا گیا ہے کہ ''ایک خاتون جس نے پاکستان کے شہری سے شادی کی ہے وہ پاکستانی شہری کے طور پر رجسٹر ہونے کی حقدار ہوگی'' لیکن اس ایکٹ میں غیر ملکی شوہروں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہاں یہ قانونی خاموشی اس قانونی فریم ورک کی عکاسی کرتی ہے جو قومیت کو مرد کی بالادستی کی عینک سے دیکھتا ہے اور پاکستانی خواتین کو خاندان اور شہریت کے معاملات میں مساوی حیثیت سے انکار کرتا ہے۔
اس طرح کا تضاد براہ راست اس آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے، جو قانون کے سامنے برابری کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ امر پاکستان کو بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی میں بھی شامل کرتا ہے، بشمول خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے کنونشن (CEDAW) اور شہری اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ (ICCPR)، جو دونوں خاندانی زندگی کے حق اور قومیت کے قوانین میں مساوی سلوک کی تصدیق کرتے ہیں۔
یہ کھلا تضاد پاکستان کے اپنے آئینی وعدوں سے بھی متصادم ہے۔ آرٹیکل 35 ریاست کو خاندان، شادی، ماں اور بچے کی حفاظت کا پابند بناتا ہے۔ پھر بھی موجودہ قانون خاندانوں کو غیر محفوظ بناتا ہے۔
پاکستان کو اب اس ممکنہ بحران کا سامنا ہے کہ یا تو پاکستانی شہریت کے فریم ورک کو برقرار رکھا جا سکتا ہے جو امتیازی سلوک اور عدم مساوات کو برقرار رکھتا ہے یا اپنی آدھی آبادی کے لیے مساوات اور خاندان کے تحفظ کے لیے اپنے آئینی وعدوں کو برقرار رکھنے کے لیے بامعنی قدم اٹھا سکتا ہے۔ پاکستانی مرد اور خواتین دونوں کو اپنے غیر ملکی شریک حیات کو شہریت دینے کی اجازت دینے کے لیے پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951 کے سیکشن 10 میں ترمیم کرنا محض تکنیکی ایڈجسٹمنٹ نہیں ہو گی بلکہ قانون کے تحت مساوی سلوک کو یقینی بنانے کے لیے یہ ایک ضروری اصلاح ہو گی۔ اس طرح کی قانونی یا آئینی تبدیلی سے دنیا کو بھی واضع ہو گا کہ پاکستانی خواتین مردوں کے برابر حقوق اور پہچان کی حقدار ہیں اور تمام خاندان، چاہے ایک شریک حیات کی قومیت سے قطع نظر، شہریت فراہم کرنے والے تحفظ اور استحکام کے مستحق ہیں۔
سمرا احمد کا مذکورہ مضمون”پاکستان ٹوڈے“میں شائع ہو۔
اردو ترجمہ و ترتیب۔احتشام الحق شامی
واپس کریں