
ایلون مسک اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان پچھلے دو ہفتے سے چلنے والے اختلافات اب کھل کر مخالفت میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ اس کو ٹرمپ کے لئے بڑا دھچکا اس لئے سمجھا جارہا ہے کیونکہ مسک ان کے سب سے بڑے حمایتی تصور کئے جاتے تھے جبہوں نے سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے لئے مہم چلانے کے ساتھ ساتھ ان کو الیکشن کے لئے 300 ملین ڈالر کا چندہ بھی دیا۔ بدلے میں ٹرمپ نے مسک کے لئے DOGE نامی ایک نیا ادارہ بنایا جسکا مقصد حکومتی اداروں میں کٹوتیاں کرنا تھا اور جلد ہی یہ ادارہ تمام اداروں سے زیادہ طاقتور ہوگیا۔ کچھ دن پہلے مسک نے امریکی حکومت چھوڑی اور اب میڈیا پر ٹرمپ کے خلاف مسلسل بیان بازی کررہے ہیں۔
اس لڑائی کی بظاہر وجہ نظریاتی ہے لیکن ہر نظریاتی لڑائی کی طرح یہ سماج میں گہرے ہوتے ہوئے تضادات کی عکاسی کرتی یے۔ ٹرمپ کی کیمپین کا ایک اہم جز امریکی حکومت میں "فضول خرچی" ختم کرنا تھا۔ ان کا ماننا ہے کہ حکومتی ادارے بے انتہا پیسہ ضائع کرتے ہیں جس کی وجہ سے امریکی معیشت قرضوں میں ڈوب رہی ہے اور یہ قرضے عوام کو واپس کرنے پڑتے ہیں۔ یہ امریکہ میں یہ کوئی نئی سوچ نہیں یے۔ امریکی صدر Ronald Reagon نے 1980 کی دہائی میں انہی الفاظ کا استعمال کرکے الیکشن جیتے اور بڑے پیمانے پر امریکہ میں حکومتی اداروں میں کٹوتیوں کے ساتھ ساتھ نجکاری بھی کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام اقدامات کا اصل ہدف 1932 میں اقتدار میں آنے والے امریکی صدر Franklin Roosevelt کی New Deal پالیسیاں ہیں۔ 1929 میں Great Depression کے بعد امریکی معیشیت شدید بحران کا شکار ہوگئی تھی جس کی وجہ سے غربت اور بے روزگاری بڑھ رہے تھے جبکہ امریکی صنعت کمزور ہورہی تھی۔ اس بحران سے نکلنے کے لئے Roosevelt نے ایک نئے سماجی معاہدے کا اعلان کیا جس میں حکومتی خرچے پر کئی نئے حکومتی ادارے بنائے گئے جس میں ہزاروں لوگوں کو نوکریاں دی گئی۔ پہلی بار امریکہ میں ویلفیئر کا نظام بھی بنایا گیا جس کے زریعے بیروزگاری الاؤنس کے ساتھ ساتھ غریبوں کو دیگر مراعات دی گئیں۔ لوگوں کو ریلیف دینے کے اس عمل کے ذریعے صنعت بھی بحال ہوئی کیونکہ عام لوگوں کی قوت فروخت بڑھنے سے معیشیت کے اندر ایک بار پھر سے تیزی آئی۔
امریکی حکمران طبقے کا ایک بڑا حصہ ہمیشہ سے ان اصلاحات کو "سوشلزم" قرار دے کر ان کے خلاف رہا یے لیکن Ronald Reagon کے دور میں انہیں پہلی بار اس نظام کو درہم برہم کرنے کا موقع ملا۔ ان کی نفرت کی بنیادی وجہ اشرافیہ پر لگنے والے ٹیکس تھے جس کی بدولت حکومتی ادارے چلتے ہیں۔ Reagon کی پالیسی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں حملہ صرف ان اداروں پر ہوا جو محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ کرتے تھے جبکہ بڑی بڑی کمپنیوں کے ٹیکس یہ کہہ کر معاف کردئے گئے کہ اپنے بڑھتے ہوئے منافع کی بدولت وہ مزید سرمایہ کاری کریں گے جس سے معیشت بہتر ہوگی۔ اس کو Trickle Down Economics کہتے ہیں یعنی اشرافیہ کے پاس دولت بڑھے گی تو قطرہ قطرہ کرکے عوام تک بھی زیادہ دولت پہنچے گی۔
ایلون مسک اور ٹرمپ کی لڑائی اس پالیسی کے اندرونی تضادات کی لڑائی یے۔ پچھلے 40 سال سے اس پالیسی پر امریکہ عمل پیرا ہے جس کی وجہ سے اشرافیہ نے کھربوں ڈالر کمائے ہیں (8 امیر ترین خاندان 40 فیصد وسائل ہر قابض ہیں) لیکن قرضے بھی بڑھتے گئے اور امریکی صنعت بھی امریکہ سے باہر، خصوصی طور پر چین، منتقل ہوگئی۔ ٹرمپ اب ایک ساتھ 4 اہداف پورے کرنا چاہتا ہے۔ ایک طرف وہ اشرافیہ کے لئے ٹیکس مزید کم کرنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب وہ برآمدات پر ٹیرف کے ذریعے ٹیکس بڑھانا چاہتا ہے۔ تیسری جانب وہ چین سے مقابلہ کرنے کے لئے امریکی میں صنعت کاری تیز کرنا چاہتا ہے جبکہ چوتھا ہدف امریکی اداروں اور یونیورسٹیوں کو کمزور کرنا ہے جن کو وہ فضول خرچی اور سیاسی مخالفت کے زمرے میں دیکھتا ہے۔
یہ تمام اہداف ایک دوسرے سے کی ضد ہیں۔ یہ بات ثابت ہوگئی یے کہ اگر کمپنیوں کو ٹیکس میں رعایت ملے تو وہ صنعت میں لگانے کے بجائے مختلف جزائر (جیسے پاناما) پر اپنے پیسے جمع کرلیتی ہیں۔ دوسری جانب ٹیرف لگانے سے ان کمپنیوں کا نقصان ہورہا ہے جو چین سمیت دیگر ممالک پر اپنی تجارت کے لئے انحصار کرتی ہیں۔ یہ سب پالیسیاں صنعتی ترقی کے لئے تباہ کن ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رپبلکن پارٹی کے اندر یہ آوازیں آرہی ہیں کہ مزید حکومتی کٹوتیوں اور یونیورسٹیوں نا صرف غریب عوام کے لئے تباہ کن ہوں گی بلکہ امریکی ریاست، جو حکومتی اداروں اور اپنی یونیورسٹیوں کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے، بھی کھوکھلی ہونا شروع ہوجائے گی۔
ان تضادات کو ٹرمپ نے Spending Bill کے ذریعے manage کرنے کی ناکام کوشش کی ہے جو مسک سے اختلافات کا باعث بنی یے۔ بل میں اشرافیہ کو ٹیکس میں ریلیف دینے کے ساتھ غریب شہریوں کے لئے میڈیکل کی سہولتیں کم کی گئی ہیں جبکہ ملٹری اور بارڈر سکیورٹی کا بجٹ بڑھادیا گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس بل کی وجہ سے امریکہ معیشت پر مزید ڈھائی کھرب ڈالر کا قرض چڑھ جائے گا۔ مسک نے کہا ہے کہ امریکی عوام debt slavery یعنی قرضوں کے ذریعے غلامی کا شکار ہونے جارہی یے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسک نے دعوہ کیا ہے کہ امریکی معیشت اس سال مزید بحران سے گزرے گی اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس غلامی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ٹرمپ نے جواب میں مسک کو طعنہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر واقعی ہی پیسے بچانے ہیں تو پھر ہمیں مسک کی کمپنی TESLA کو ملنی والی حکومتی مراعات کا خاتمہ کردینا چاہئے۔ ان طعنوں کے پیچھے وہ نہ ختم ہونے والے تضادات ہیں جن میں امریکی حکمران طبقات پھنس چکے ہیں۔
اس خبر سے ایک بار پھر یہ حقیقت عیاں ہوگئی ہے کہ پمریکہ ایک زوال پذیر سامراج ہے جو معاشی اور سماجی بحران کے بعد اب شدید سیاسی بحران کا شکار ہوچکا یے۔ لیکن یاد رکھیں کہ ان تمام ناکامیوں کے باوجود آج جھی امریکہ کے پاس اپنی ملٹری کے ذریعے دنیا کو تباہ کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ جس خطے میں جاتا یے وہاں یا تو خود جنگ کرتا ہے یہاں یوکرائن کی طرح اپنے اتحادیوں سے جنگ لڑواتا ہے۔ آج جب معیشت میں وہ چین کا مقابلہ نہیں کرپارہا تو اس کی خواہش ہے کہ ہمارے خطے میں بھی جنگ کے ذریعے اپنے حریف کو راستے سے ہٹایا جائے۔ اس زوال پذیر امریکی سامراج سے دور رہنا ہی بہتر ہے کیونکہ وہ ہر سماج کو اپنی اندرونی لڑائی کی گرفت میں لے رہا ہے۔ یہ پاکستانی حکمرانوں کے لئے بھی وارننگ ہے جو معدنیات کے معاملے پر چھلانگیں لگارہے تھے۔ سامراجی ڈالری جنگوں کی سوچ سے نکلیں اور عوام دوست صنعتی ترقی کی طرف بڑھیں۔ اگر ایسا نہیں کیا تو اس بار امریکہ بھی آپ کو نہیں بچا سکے گا کیونکہ وہ تو خود کو بھی بچانے کی قابلیت تیزی سے کھورہا ہے۔
واپس کریں