
(احتشام الحق شامی) بزنس ٹائیکون ملک ریاض حسین، سابقہ پی ٹی آئی دور حکومت کی فرنٹ لیڈی فرح گوگی، موصوفہ کے شوہر احسن جمیل گجر، سابق وفاقی وزیر عامر محمود کیانی، سابق وزیرِا علی پنجاب عثمان بزدار، سابق وزیرِا علیٰ کے پی کے پرویز خٹک، موجودہ سی ایم خیبر پختون خواہ علی امین گنڈاپور، چوہدری مونس الٰہی، سابق وفاقی وزیر عمر ایوب، سابق وفاقی وزیر حماد اظہر، اظہر مشوانی، سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری، سینیٹر فیصل جاوید، اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر۔
یہ وہ چند اور معروف بڑے نام ہیں جن پر ماضی قریب میں اربوں روپے کی کرپشن کرنے کے الزامات لگائے گئے، اخبارات میں شہ سرخیاں لگیں اور اس ضمن میں قومی میڈیا پر پروگرام نشر ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک لمبی فہرست ان افراد کی بھی موجود ہے جنہوں نے کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور سسٹم کے خفیہ ہاتھ سے پارٹنر شپ کے باعث قانون کی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
پی ٹی آئی دورِ حکومت کے ان اہم افراد کے خلاف نیب اور محکمہ اینٹی کرپشن نے دبنگ کاروائی کرنے کا اعلان کیا لیکن ان بڑے ناموں کے خلاف ”قانونی کاروائی“ آگے نہیں بڑھنے کی ہمت نہیں کر سکی۔ابھی حال ہی میں پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت کے سرکاری بینک اکاونٹس سے 40 ارب روپے سے زائد کی خوردبرد اور مالی بدعنوانی کا انکشاف ہوا ہے اور خردبرد کی رقم مسلسل بڑھ رہی ہے، ”قانونی کاروائی“کا اعلان ہوا ہے لیکن ہم دیکھیں گے کہ اس ضمن میں بھی کچھ نہیں ہو نے والا، لیکن کیوں؟ میگا کرپشن کیوں نہیں پکڑی جاتی؟
وجہ سادہ ہے،یاد رکھیئے گا کہ کوئی بھی فردِ واحد سسٹم کے اندر رہ کر اکیلے میں اربوں روپے کی کرپشن کر ہی نہیں سکتا،جب تک کہ اس کے ساتھ سسٹم کے اندر موجود طاقتور لوگ یا خفیہ ہاتھ ساتھ میں شام نہ ہوں۔
آج عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بیگم کے علاوہ تقریباً تمام مذکورہ کردار آذادانہ گھوم پھر رہے ہیں،سیاست بازی بھی کر رہے ہیں اور فرح گوگی سمیت کچھ دیگر دبئی میں گلچھرے اڑا رہے ہیں لیکن انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
آپ بیرونِ ملک سے وطن واپسی پر اپنے ساتھ ایک علیحدہ موبائل فون تک نہیں لا سکتے اخے قانون سخت ہے اور یہاں سے اگر بیرون ملک زیرِ تعلیم اپنے بچوں کی کالج فیس بھیجنی ہو تو بینک والے پسینے نکال دیتے ہیں اخے قانون سخت ہے تو پھر یہ کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے کہ اس ملک سے باہر لوٹ مار کے اربوں روپے خاموشی سے ٹرانسفر کر دیئے جائیں۔
فارن فنڈنگ کیس، پارٹی فنڈنگ کیس، سرکاری منصوبوں میں کرپشن،بلین ٹری منصوبہ،کوہستان اور مالم جبہ پروجیکٹس،آئی پی پیز (انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز)،میڈیا کنٹرول اور کرپشن اور بی آر ٹی منصوبہ۔یہ تو وہ چند میگا اسکینڈل ہیں جو منظرِ عام پر آئے، ابھی حال ہی میں بلوچستان ا سمبلی میں ایک خاتون رکن نے بتایا کہ صوبہ میں ڈپٹی کمشنر لگنے کا ریٹ بیس کروڑ روپے ہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی دورِ حکومت اور اس وقت خیبر پختون خواہ حکومت میں اندر خانے اربوں روپے کی جو ڈیلیں جاری ہیں، وہ غضب کرپشن کی ایک الگ عجب کہانی ہے جو ابھی آشکارا ہونا باقی ہے۔عرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اربوں کے کرپشن تن تنہاء ممکن ہی نہیں ہوتی جب تک کے سسٹم کے خفیہ ہاتھ کی اندر خانے مدد اور حمایت حاصل نہ ہو۔
واپس کریں