واشنگٹن نے امریکی مفادات کی خاطر کسی ملک کی سلامتی پر حملہ آور ہونا اپنا حق بنا رکھا ہے

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے علاوہ پورے خطے کے امن و سلامتی کا دارومدار مسئلہ کشمیر کے حل پر ہی ہے چنانچہ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کی خواہش کا اظہار کرکے درحقیقت علاقائی اور عالمی امن کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر انکی اس خواہش اور ممکنہ کردار کے نتیجہ میں بھارت کشمیری عوام کی امنگوں اور یواین قراردادوں کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر حل کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو اس کا سہرا یقینی طور پر امریکی صدر ٹرمپ کے سر ہی سجے گا اور اس سے علاقائی اور عالمی امن کی بھی ضمانت مل جائیگی۔ اس تناظر میں وزیراعظم شہبازشریف اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے امریکی صدر کی بجا طور پر ستائش کی ہے اور ان سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مؤثر کردار کی بھی توقع ظاہر کی ہے تاہم جہاں تک پاکستان امریکہ تعلقات اور امریکی صدر ٹرمپ کے عالمی امن کے چیمپئن کہلانے کا معاملہ ہے‘ اس میں ہمیں یہ حقیقت ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ امریکہ میں ڈیموکریٹس برسراقتدار ہوں یا ری پبلیکنز‘ ہر امریکی حکومت امریکی سلامتی سے متعلق مفادات کو ہی فوقیت دیتی ہے۔ اس بنیاد پر واشنگٹن انتظامیہ نے امریکی مفادات کی خاطر کسی ملک کی سلامتی پر حملہ آور ہونا بھی اپنا حق بنا رکھا ہے۔ عراق‘ افغانستان پر چڑھائی اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کی پاداش میں پاکستان‘ ایران اور جنوبی کوریا کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا اور ان پر اقوام متحدہ کی پابندیاں عائد کرانا بھی اسی امریکی پالیسی کا شاخسانہ ہے۔ اسی طرح صیہونی توسیع پسندانہ عزائم کی حوصلہ افزائی اور اسرائیل کی سرپرستی کرکے بے گناہ فلسطینیوں کی نسل کشی کیلئے انکے قتل عام کی کھلی چھوٹ دینا بھی امریکی مفادات ہی کا حصہ ہے۔ اس حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کا ٹریک ریکارڈ تو انتہائی خراب ہے جنہوں نے اپنے پہلے دور حکومت میں مقبوضہ بیت المقدس کا اسرائیل کے ہاتھوں حشرنشر کرایا اور یروشلم میں امریکی سفارتخانہ قائم کرکے اسے اسرائیل کا حصہ ظاہر کیا۔ اب گزشتہ اڑھائی سال سے غزہ میں امریکی سرپرستی میں ہی اسرائیلی بربریت کا سلسلہ جاری ہے۔ دنیا بھر میں اسرائیلی بربریت اور فلسطینیوں بالخصوص خواتین اور بچوں کے قتل عام پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ یورپی‘ برطانوی پارلیمنٹ اور امریکی کانگرس تک میں اسرائیلی سفاکیت کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ عالمی کھیلوں کے چیمپئنز احتجاجاً اپنے میڈل واپس کر رہے ہیں مگر ٹرمپ انتظامیہ اسرائیلی ہاتھ روکنے کے بجائے اسے فلسطینیوں کیخلاف جنگی سازوسامان فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔ حد تو یہ ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کیلئے یواین سلامتی کونسل میں اب تک جتنی بھی قراردادیں پیش ہوئی ہیں‘ ان سب کو امریکہ نے ویٹو پاور استعمال کرکے مسترد کرایا ہے۔ گزشتہ روز بھی سلامتی کونسل میں پاکستان کی پیش کردہ غزہ جنگ بندی کی قرارداد امریکہ نے ہی ویٹو کی جبکہ اسرائیلی بربریت اب غزہ پٹی کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس تناظر میں کیا ہم امریکی صدر ٹرمپ سے توقعات وابستہ کر سکتے ہیں کہ وہ علاقائی اور عالمی امن کیلئے مخلصانہ کردار ادا کریں گے۔ پاکستان اور بھارت میں جنگ بندی کیلئے بھی صدر ٹرمپ امریکی مفادات کے تحت ہی یکایک میدان میں اترے تھے ورنہ تو ایک روز پہلے تک وہ اس جنگ سے امریکی لاتعلقی کا اظہار و اعلان کر رہے تھے اس لئے ہمیں ٹرمپ انتظامیہ کے کسی بھی کردار کے حوالے سے پاکستان کے بہترین مفادات کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ اگر ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق اپنے کردار کے ساتھ مخلص ہونگے تو یہ دیرینہ مسئلہ حل ہونے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ یہ مسئلہ بہرصورت یواین قراردادوں کے مطابق ہی حل اور کشمیریوں کیلئے قابل قبول ہونا ہے جس کیلئے اصل ضرورت بھارتی اخلاص اور آمادگی کی ہے۔
واپس کریں