دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہماری ترجیحات کیا ہیں؟
No image خاکسار تقریباً2009 سے سوشل میڈیاپلیٹ فارم فیس بک اور ٹیوٹر پر موجود ہے،اس دوران عام عوام کی ترجیحات اور خیالات پڑھنے کا بغور موقع ملا ہے اور جو بات نمایاں محسوس کی وہ ناچیز کے لیئے حیران کن اور تکلیف کا باعث رہی ہے۔ عام عوام کے بنیادی اور اہم مسائل، اگر کسی بھی لکھاری کی تحریر میں اٹھائے گئے ہوں تو ایسی تحریر کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی لیکن اگر کسی فردِ واحد یا کسی سیاسی شخصیت کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے تو اسی پوسٹ یا تحریر کو مخالفین بہت زیادہ اہمیت دیتے نظر دکھائی دیں گے۔باالفاظِ دیگر عام عوام کی ترجیحات میں فقط فلاں زندہ باد اور فلاں مردہ باد دکھائی دے گا۔
مہنگائی،معاشی صورتِ حال، بڑھتی غربت، مہنگی بجلی و پٹرول، معاشرتی اصلاحات، دوہراتعلیمی نظام، بے روزگاری، بڑھتے ٹیکس، امن و امان اور عام آدمی کو پیش آنے والے روزانہ کے مسائل پر نہ تو کوئی یوٹیوبر پروگرام کرتا دکھائی دے گا اور نہ ہی قومی میڈیا پر عام آدمی کے مسائل کو کوریج دے جاتی ہے۔یہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ سے لے ضلعی عدالتوں تک بھی زیادہ تر مقدمات بھی سیاسی یا حکومتی نوعیت کے سنے جاتے ہیں اور انہیں ہی اہمیت دی جاتی ہے جبکہ عام آدمی سے متعلق مقدمات مثلاً جائیداد کے تنازعات، لڑائی جھگڑے،لین دین یعنی سول مقدمات کو غیر اہم سمجھتے ہوئے ”اگلی تاریخوں“ کی نظر کر دیا جاتا ہے۔
من حیث القوم ہماری ترجیحات اب اس مقام پر پہنچ چکی ہیں کہ اگر کوئی سیاسی لیڈر رات کے پچھلے پہر بھی جلسے کی کال دے تو اس کے چاہنے والے اپنے تکیے اور کمبل سمیت جلسہ گاہ میں پہنچ جائیں گے لیکن اپنے اور اپنی اولادوں کے حقوق کے لیئے احتجاج کرنے ہرگز اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے۔
آپ شادی بیاہ کی تقریب، کسی محفل یا فوتگی والے گھر میں بھی موجود ہوں تو وہاں بھی سیاسی لیڈران،امریکہ اوریوکرائن ڈسکس ہو رہا ہو گا نا کہ وہاں موجود لوگ اپنے ارد گرد درپیش سلگتے مسائل کے بارے میں تبادلہَ خیال کر رہے ہوں گے۔
مختصر کہ ایسی ترجیحات رکھنے والی اس قوم کو اگر اس کے ہر وقت کے مسلط حکمران بار بار جوتے مارتے ہیں تو اس میں کوئی اعتراض والی کوئی بات نہیں ہونی چاہیئے،جیسا منہ ویسی چپیڑیں۔
واپس کریں