
سیاسی مفاہمت کی واضح اور کھلی دعوت کے باوجو بانی پی ٹی آئی عمران خان نے ہمیشہ سے غیر سیاسی راستہ اختیار کیا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے، ان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے ملک کی غیر سیاسی قوتوں سے '' کچھ دینے اور لینے'' کے انتظام کے لیے اپیل کی اور پوچھا کہ ان کے بھائی نے کیا غلط کیا ہے؟ لیکن ساتھ ہی پی ٹی آئی نے اپنے روایتی متضاد موقف کو برقرار رکھا کہ عمران خان غیر متزلزل ہیں اور ’ظالموں‘ کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے۔ یہ الجھا ہوا اور دوہرا پیغام کسی سیاسی مقصد کی تکمیل کیسے کر سکتا ہے؟ شاید عمران خان کا عزم اور ارادہ کے حامیوں کو کچھ اور یقین دلاتا ہے۔
یہ تیزی سے ظاہر ہو رہا ہے کہ عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے مسلسل اپیلوں پر خاموشی اختیار کی جا رہی ہے۔ حالات بتاتے ہیں کہ فوج نے سیاسی معاملات میں عدم شمولیت کے اپنے موقف کی توثیق کی ہے اور سیاسی لیڈروں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے تنازعات خود حل کریں۔ اس کے باوجود، پی ٹی آئی اس پیغام پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ بلکہ اس پر یقین ہے کہ بڑے پیمانے پر مظاہرے یا انتخابی کارکردگی اشٹبلشمنٹ کو مجبور کر دے گی۔ یہ سوچ بھی کسی قسم کا عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہی ہے بلکہ اس سوچ نے عمران خان کو ممکنہ اتحادیوں سے مزید دور کر دیا ہے اور حقیقت یہ بھی ہے کہ 9 مئی اور نومبر 2024 کے مظاہروں کے پُرتشدد نتائج نے پی ٹی آئی کی اسٹریٹ پاور اور سیاسی لیوریج کو کمزور کردیا۔
عمران خان اور ان کی پارٹی کو اب اس کھلی حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیئے کہ آگے بڑھنے کا راستہ سیاسی بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے نہ کہ محاذ آرائی، خفیہ ڈیل اور عوام سے سڑکوں پر آنے کی مایوس کن اپیلوں سے۔ فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد پی پی پی کے ساتھ ممکنہ اتحاد کو ترک کرنے کا عمران کا فیصلہ ایک ضائع ہونے والا موقع تھا جو سیاسی منظر نامہ نمایاں طور پر تبدیل کر سکتا تھا لیکن اس کے بجائے، عمران خان نے ان سیاسی کرداروں کے ساتھ چلنے سے انکار کر کے خود کو تنہاء کر لیا جن کے ساتھ انہیں دوبارہ ممکنہ مذاکرات کے بعد سیاسی حیثیت میں کام کرنا تھا۔ جیسا کہ صدر آصف علی زرداری نے اس سال کے شروع میں کہا تھا کہ”پاکستان کے بے شمار چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد ضروری ہے، اقتصادی عدم استحکام اور داخلی سلامتی سے لے کر علاقائی کشیدگی اور موسمیاتی ہنگامی صورت حال تک اور کوئی ایک جماعت اکیلے ان مذکورہ مسائل پر توجہ نہیں دے سکتی“
عمران خان کو اپنی سیاسی بقاء اور سیاسی تنہائی سے نکل کر اپنے حریفوں کے ساتھ مذاکرات کے جمہوری اصولوں کو اپنانا چاہیئے۔ نعروں اور سیاسی شعبدی بازی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ پاکستان کو ہر جانب سے سیاسی قیادت کی ضرورت ہے اور اس میں پی ٹی آئی بھی شامل ہے۔ اگر عمران خان واقعی اپنے ملک اور اپنے حامیوں کی کوئی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو انہیں پردے کے پیچھے والوں سے نہیں بلکہ ملک کی سیاسی قیادت کے ساتھ ہی بات چیت کرنا ہو گی۔
مختصر کہ پی ٹی آئی یا عمران خان کے لیے یہ یاد دہانی ہے کہ ان کے حق میں سیاسی پیش رفت، خفیہ رابطوں، بیک ڈور چینلز ڈیل یا غیر سیاسی قوتوں سے اپیلوں کے ذریعے حاصل نہیں ہوگی۔
واپس کریں