دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"وراثتی جائیداد سے متعلق مقدمات اور صورتِ حال"
No image پاکستان کی ضلعی عدالتوں میں زیر التوا 1.86 ملین مقدمات کا ایک بڑا حصہ وراثتی جائیدا د سے متعلق ہیں۔ قانون اور انصاف کمیشن آف پاکستان کی 2023 جولائی سے دسمبر تک کی دو سالانہ رپورٹس کے مطابق، پاکستان کی تمام عدالتوں میں مجموعی طور پر 2.26 ملین مقدمات زیر التوا ہیں ان میں سے 1.86 ملین (82%) ضلعی عدالتوں کے پاس زیر التوا ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ضلعی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں سول کیسز کا حصہ 64% ہے، یعنی تقریباً 1,190,400 مقدمات سول نوعیت کے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق جائیداد کے تنازعات، خاص طور پر زمین سے متعلق، سول مقدمات کا ایک بڑا حصہ ہیں یعنی پاکستان میں سول مقدمات میں جائیداد یا وراثت کے تنازعات کا تناسب زیادہ ہے۔پنجاب کی ضلعی عدلیہ کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہاں 1,345,632 سول اور فیملی کیسز زیر التوا ہیں، جن میں جائیداد اور وراثت کے مقدمات بڑی تعداد میں شامل ہیں۔
مجموعی طور پر زیر التوا، مقدمات کی تعداد 2.26 ملین سے زائد ہو چکی ہے اور ان میں وراثتی جائیداد کی تقسیم سے متعلق ضلعی عدالتوں میں مقدمات 64% ہیں یعنی لاکھوں کی تعداد میں ہے جن میں خاکسار کا مقدمہ بھی دو برس سے شامل ہے۔
عرض کرنے کا مقصد ہے کہ وزارتِ قانون کو اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنے کی ضرورت ہے، وفاق اور صوبوں میں سول ججوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے، وراثتی جائیداد کی تقسیم سے متعلق مقدمات کے فیصلوں کو جلد یقینی بنایا جائے اور اس ضمن میں خواہ مخواہ کے سٹے آرڑز اور اپیلوں کے تاخیری حربوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے حال ہی میں کہا ہے کہ وراثت کے مقدمات کیلئے خصوصی عدالت قائم کردی ہے، جس کا سلسلہ مزید اضلاع تک بھی پھیلایا جائے گا۔ لوگوں کے مسائل یہاں حل ہوں گے تو عدالتوں پر کیسز کا بوجھ بھی کم ہو گا، اور سائلین کو بھی جلد انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے گی جو کہ ہماری اولین ترجیح ہے،کیا ہی اچھا ہو کہ وفاقی اور دیگر صوبوں کے منصف بھی اس ضمن میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کی پیروی کریں تا کہ عام عوام کو ریلیف مل سکے۔
لیکن ہوتا کیا ہے؟رٹ پٹیشن باپ دائر کرتا ہے اور فیصلہ پوتا وصول کرتا ہے۔ سال ہا سال تاریخ پر تاریخ، گرمیوں کی چھٹیاں، وکلاء کی ہڑتالیں، فیصلہ آنے پر چیلنج پھر کئی ماہ و سال تاریخیں، پھرفیصلہ آنے پر سٹے، پھر اپیل اور تاریخیں اور اسی دوران رٹ پٹیشن دائر کرنے والے والد صاحب اللہ کو پیارے ہو چکے ہوتے ہیں۔جی ہاں یہ ہے ہمارا عدالتی نظام جہاں عام عوام انصاف لینے پہنچتے ہیں اور انصاف فراہم کرنے والے ممالک میں ہماری عدلیہ کا نمبر125 سے بھی پیچھے ہے۔
واپس کریں