دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جموں کشمیر لیبریشن لیگ اور عوامی ایکشن کمیٹی
No image جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی آذاد کشمیر کے بینر تلے سول سوسائٹی کی جانب سے حالیہ دنوں اور ماضی قریب میں مختلف مطالبات کی کامیابی تا حال بیوروکریسی اور حکمران اشرافیہ کو ہضم نہیں ہو رہی بلکہ دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی آذاد کشمیر کے راہنماوں کی ریاست سے وفاداری اور محب الوطنی ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ ان کی شہرت وکامیابی کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ جس باعث ریاست کا بچہ،جوان اوربوڑھا اور پر مرد و زن ان کی جانب سے ہر کال پر لبیک کہنے کو تیار رہتا ہے وہ”عوام کے بنیادی مسائل پر آواز اٹھانا اور ان عملی حل“ہے حالانکہ یہ کام ایوان میں بیٹھے ممبران اسمبلی کا ہے جو ہر ماہ کروڑوں روپے کی مراعات اور تنخواہوں سے مستفید ہو رہے ہیں لیکن ظاہر ہے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی آذاد کشمیر چونکہ ایک غیر سیاسی پلیٹ فارم ہے جو عوامی حمایت یا ڈنڈے کے زور پر ہی حکومتِوقت سے بنیادی عوامی مطالبات منوانے کی کوشش کرتا ہے،مثلاً سستے آٹے کی فراہمی،سستی بجلی اور اسی نوعیت کے مسائل لیکن وہ بڑے اور اہم متنازعہ آئینی مسائل جن کے بارے میں ترامیم قانون ساز اسمبلی میں ہی ممکن ہو سکتیں ہیں،ان آئینی مسائل کے حل کے لیئے سڑکوں پر احتجاج کے زریعے اپنے حقوق اور مطابات منوانے والی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی آذاد کشمیر کیسے نبرد آزما ہو گی؟ اس کے لیئے قانون ساز اسمبلی ہی وہ واحد پلیٹ فارم ہے جہاں جا کر متنازعہ آئینی مسائل کے بارے میں آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔
یہاں یہ عرض کرنے میں ناچیز کو عار نہیں کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کے نظریات میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے اور حالیہ مہینوں میں عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاجوں میں قوم پرست جماعتیں پیش پیش تھیں۔
اب مختصر عرض کرنے کی کوشش کروں گا کہ عوامی پذیرائی یا حمایت کے بل بوتے پر سڑکوں پر احتجاج تو کیا جا سکتا ہے مگر قانون سازی نہیں، اور اس کے لیئے الیکشن میں جانا پڑتا ہے اور عوامی حمایت یافتہ افراد،گروہوں یا ایکشن کمیٹیوں کا الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی آذاد کشمیر غیر سیاسی تنظیم ہے لیکن اس کے عہدیداران اب اگر آمدہ عام انتخابات میں آذاد امیدوار کے طور پر بھی حصہ لیتے ہیں تو ظاہر ہے اپنی ساکھ کھو بیٹھیں گے جو انہیں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی آذاد کشمیر اور سول سوسائٹی کی جانب سے میسر آئی ہے تو پھر سول سوسائٹی کی دستیاب حمایت اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی آذاد کشمیر کو سیاسی طور پر کیسے آذاد کشمیر کی اشرافیہ یا اسٹیٹس کو کے خلاف استعمال میں لایا جائے؟ اور ایسے عوامی نمائندوں کو ایوانِ اقتدار تک پہنچایا جائے جنہیں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی آذاد کشمیر کی حمایت حاصل ہو؟ کیونکہ اس کے بعد ہی متنازعہ معاہدہِ کراچی،ایکٹ74میں ترامیم، مہاجرین کی نشستوں کا خاتمہ، ریاست پر مکمل حقِ حکمرانی اور حقِ ملکیت کا خواب شرمندہِ تعبیر ہو سکے گا۔
روائتی سیاسی جماعتوں کا ذکر ہی نہ کی جائے تو بہتر ہو گا جن کا سیاسی قبلہ بنی گالا، رائے ونڈ،منصورہ،ڈیرہ اسماعیل خان یا لاڑکانہ ہے،رہی بات قوم پرست جماعتوں کی تو انہیں الیکشن لڑنے کی ہی اجازت نہیں حالانکہ ان کا کشمیر پر جاندار اور حقیقت پسندانہ موقف دنیا بھر میں توجہ سے سنا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں انہیں ریاست دشمن اور دشمن ملکوں کا ایجنٹ کہا جاتا ہے۔
خاکسار نے بطور ایک سیاسی کارکن اور طالب عالم جموں کشمیر لبریشن لیگ جو ا لیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے کا سیاسی موقف سنا اور پڑھا ہے اور جو دو باتیں نمایاں پائی ہیں ان میں ایک آذاد کشمیر کا”ریاستی تشخص“ ہے جبکہ اسی ریاستی تشخص کی بنیاد پر ہی متنازعہ آئینی ترامیم اور قانون سازی عمل میں لائی جا سکتی ہے اور دوئم لیبریشن لیگ کی قیادت ہمیشہ اعلیٰ تعلیم یافتہ رہی ہے،موجودہ قیادت بھی نامور اور لائق قانون دانوں پر مشتمل ہے۔
آمدہ عام انتخابات میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی آذاد کشمیر، اگر جموں کشمیر لیبریشن لیگ کا دست و بازو بنے اور یہ”عوامی اتحاد“ اگر تمام انتخابی حلقوں میں اپنے اپنے امیدوار کھڑے کر دے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اسٹیٹس کو اور روائتی گھسے پٹے سیاسی نظام میں بڑی واضع دراڑ پیدا کی جا سکے گی جو یقینا مستقبل قریب میں کشمیر اور کشمیریوں کے لیئے ایک بڑی اور مثبت سیاسی تبدیلی کا باعث بنے گی۔
واپس کریں