دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کو خضدار میں بھارتی دہشتگردی کے شواہد دنیا کے سامنے رکھنے چاہئیں
No image خصدار میں اسکول بس پر ہونے والا خودکش حملہ گھناؤنا فعل تھا۔ 5 شہید افراد میں 3 بچے شامل ہیں۔ کئی افراد زخمی ہیں جن میں چند کی حالت تشویش ناک ہے۔پاک فوج کے میڈیا ونگ اور وزیر اعظم کے دفتر سے بیان جاری کیا گیا کہ اس دہشتگرد حملے کے ذمہ دار بھارت اور اس کی پراکسیز ہیں۔ سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے علاوہ بلوچستان میں علحیدگی پسند گروہوں کے حملوں میں متعدد نہتے بےگناہ شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔ شرپسندوں کی جانب سے غیربلوچ مزدوروں کا قتل عام بھی بلوچستان میں جاری شورش کا بھیانک پہلو رہا ہے۔
بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ انتظامیہ کے پاس انٹیلی جنس اطلاعات تھیں کہ بھارت بلوچستان کو غیرمستحکم کرنے کے لیے کارروائیاں کرے گا جبکہ پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے رواں ہفتے کہا تھا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مختلف کارروائیوں میں ’بھارتی پراکسیز‘ سے تعلق رکھنے والے 12 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔
اگرچہ کسی تنظیم نے بھی تاحال خضدار حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت اور دیگر ریاست دشمن عناصر پاکستان میں بےامنی پھیلانے میں ملوث ہیں۔ اس کی سب سے اہم مثال کلبھوشن یادیو ہے۔ اس پیٹرن کو دیکھتے ہوئے ریاست کے پاس جواز ہے کہ وہ گزشتہ روز ہونے والے ظالمانہ حملے کو پراکسیز سے منسلک کرے بالخصوص جب ان کے پاس مضبوط ثبوت ہیں جو ان پراکسیز کے جرم کو ثابت کرتے ہوں۔
ہمارے مشرقی ہمسایے کی حالیہ مثال سبق ہے۔ نئی دہلی نے کسی ثبوت کے بغیر ہی پہلگام حملے کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرادیا۔ مقبوضہ کشمیر میں حملے پر مودی انتظامیہ کے جارحانہ ردعمل نے دونوں ممالک کو مکمل جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ پاکستان کو زیادہ معقول رہنا چاہیے۔ اس کے پاس بھارت کے ملوث ہونے کے جو شواہد ہیں، انہیں نئی دہلی اور بین الاقوامی برادری کے سامنے رکھنا چاہیے۔ یہی درست راستہ ہوگا کیونکہ پہلگام کے بعد بھارتی بیانیے کو اقوامِ عالم نے سنجیدہ نہیں لیا تھا۔
سچ یہ ہے کہ بلوچستان میں ایک حقیقی مسئلہ ہے اور پاکستان کو اس کے حل کے لیے طویل مدتی اقدمات لینے کی ضرورت ہے تاکہ بیرونی یا اندرونی عناصر صورت حال کا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ پاکستانی ریاست کو اس معاملے پر سنجیدگی سے کام لینا چاہیے۔
بلوچستان کے عسکریت پسند مسئلے کو حل کرنے کے لیے انسداد دہشت گردی کے ساتھ ساتھ سیاسی حل کی ضرورت ہے۔ بےگناہ شہریوں کے قتل میں ملوث افراد کو ان کے جرائم کی سزا دینی چاہیے۔ لیکن دہائیوں پرانی شکایات کے سیاسی ازالے کے بغیر انسداد دہشتگردی کی پائیدار حکمت عملی ترتیب نہیں دی جاسکتی۔ اس کے لیے بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ تمام ناقدین کو ’قوم مخالف‘ یا ’بھارتی ایجنٹس‘ قرار دے کر بلوچستان میں امن نہیں لایا جاسکتا۔
صوبے میں مفاہمت کے عمل کی سخت ضرورت ہے جس میں عدم تشدد کے حامی سیاسی عناصر شامل ہوں جو آئین کی حدود میں رہ کر کام کرنے پر راضی ہوں۔ صرف عسکری کارروائیاں ناکافی ہوں گی۔
واپس کریں