دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
موجودہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی رہائی
No image عدالتی فیصلے اور رویہ:حالیہ مہینوں میں مختلف عدالتوں نے عمران خان کے خلاف مقدمات میں فیصلہ سازیاں کی ہیں۔ مثال کے طور پر 3 جون 2024 کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان اور ان کے ساتھی کو بری کرتے ہوئے حکم دیا کہ وہ “فوراً رہا کیے جائیں، بشرطیکہ وہ کسی اور مقدمے میں قید نہ ہوں”۔ تاہم اسی دوران اور بعد میں دیگر مقدمات میں عمران خان کو مختلف سزائیں سنائی گئیں۔ 20 نومبر 2024 کو ایک عدالت نے توشہ خانہ (سرکاری تحائف فروخت) کے مقدمے میں عمران خان کو ضمانت پر رہا کر دیا، البتہ حکومت نے نوٹ کیا کہ ان پر احتجاجی ہنگاموں کے مقدمات ہیں جن میں ابھی ضمانت نہیں ملی۔ توشہ خانہ کیس میں عمران خان پر لگائی گئی 14 سالہ سزا کو عدلیہ نے اپیل پر معطل کر رکھا ہے۔ دسمبر 2024 میں اینٹی ٹیررازم عدالت نے ان کے خلاف سات مقدمات میں 14 روز کے عدالتی ریمانڈ کی منظوری دی، یعنی انہیں مزید گرفتار رکھنے کا حکم جاری ہوا۔ یکم مئی 2025 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے بھی تحریری طور پر کہا کہ عمران خان کی ایک اہم اپیل اس سال سنی نہیں جا سکے گی کیونکہ مقدمات کو داخلے کے مطابق ہی فہرست کیا جاتا ہے اور ان کے مقدمے کی سماعت طویل التواء کا شکار ہے۔ اس خلاصے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالتوں نے بعض کیسوں میں کشادگی دکھائی (جیسا کہ سائفر کیس میں بریت اور توشہ خانہ کیس میں ضمانت)، مگر دوسرے سنگین الزامات میں انہیں جیل میں رکھنے کا رجحان برقرار ہے۔
حکومت اور فوجی قیادت کے بیانات و اقدامات
حکومت اور فوج نے عمران خان کے معاملے پر واضح مؤقف اختیار کیا ہے۔ وزارتِ اطلاعات کے عہدیداروں نے تاکید کی کہ عمران خان کے خلاف “ناقابل تردید ثبوت” موجود ہیں اور انہیں ریاست مخالف ہنگاموں کے مقدمات میں ضمانت نہیں ملی۔ مثال کے طور پر وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے نومبر 2024 میں کہا کہ عمران خان کو دیگر مقدمات میں ضمانت نہیں ملی جبکہ توشہ خانہ میں عطا کی گئی ضمانت سے رہائی پر کارروائی ہوگی۔اسی طرح، مئی 2025 میں وزیر دفاع خاجہ آصف نے بھی پی ٹی آئی کی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ انہوں نے رہائی کو حاضری کی شرط بنایا ہے۔ فوجی قیادت کی طرف سے بھی واضح انداز میں کہا گیا ہے کہ وہ عمران خان یا پی ٹی آئی کے ساتھ سیاست کرنے میں آسانی نہیں کرے گی۔ مثال کے طور پر، مئی 2024 میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ فوج اور حکومت کا پی ٹی آئی سے ڈائیلاگ تبھی ممکن ہے جب وہ “عوام کے سامنے مخلصانہ معافی” مانگے اور “تشدد کی سیاست” ترک کرے۔ ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ مذاکرات یا رہائی کے لیے پی ٹی آئی کو سخت شرائط پر آمادہ کر رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ان ڈائیلاگز میں بھی عمران خان کی رہائی کو اہم نکتہ بنایا گیا، مگر فوجی قیادت نے بارہا تاکید کی کہ عدالتی کارروائی کا رُخ خودمختار ہے اور سیاست دانوں کو شرائط ماننا ہوں گی۔
بین الاقوامی دباؤ اور سفارتی سرگرمیاں
بین الاقوامی طور پر بھی عمران خان کے مقدمات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، دسمبر 2024 میں امریکی محکمہٴ خارجہ نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل سے متعلق فیصلوں میں شفافیت کا فقدان ہے اور پاکستان کو منصفانہ مقدمے کے حق کا احترام کرنا چاہیے۔ اسی دوران یورپی یونین نے بھی خبردار کیا کہ اگر پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی ہوئی تو اس کے ترجیحی تجارتی معاہدے (جی ایس پی پلس) کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے خبردار کیا ہے کہ جی ایس پی+ کے خاتمے سے پاکستان کی برآمدات میں 20-30 فیصد تک کمی آ سکتی ہے۔ دو طرفہ تعلقات میں بھی عمران خان کے معاملے پر امریکہ میں کشادگی دیکھی گئی ہے۔ اپریل 2025 میں امریکی کانگریس کے رکن جیک برگمین نے پاکستان کے دورے کے بعد عمران خان کی رہائی کا مطالبہ دہرایا اور کہا کہ دوطرفہ تعلقات کو مضبوط رکھنے کے لیے جمہوریت اور انسانی حقوق کا احترام ضروری ہے۔ علاوہ ازیں، امریکی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی پاکستان کے بعض قدامت پسند رہنما، جیسے رچرڈ گرینل اور میٹ گیٹز، نے عمران خان کے لیے مہم چلائی ہے۔ مثال کے طور پر نومبر 2024 میں رچرڈ گرینل نے اسلام آباد احتجاج کے دوران کہا، “ان کے خلاف مقدمے من گھڑت ہیں، سیاسی مقدمات روکے جائیں!”۔ یہ عالمی تنقید اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان کے رویے پر دباؤ بڑھ رہا ہے، حالانکہ ابھی تک اس نے اندرونی حکمتِ عملی پر واضح اثر نہیں ڈالا۔
سیاسی ماحول اور عوامی رائے کا دباؤ
پاکستان میں سیاسی فضا انتہائی گرم ہے، اور عمران خان کے مداح ان کی رہائی کا مطالبہ مسلسل کرتے رہے ہیں۔ جنوری 2025 میں احتساب عدالت نے ایک اور مقدمے میں عمران خان کو 14 سال قید کی سزا سنائی تو ان کے حامیوں نے دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کیا۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اس فیصلے کو “جعلی مقدمہ” قرار دیا اور اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا۔ عدالتوں کے باہر اور جیل کے باہر بھی ان کے حامی نعرے بازی کرتے رہے، حکومت کے خلاف احتجاج کرتے اور ان کی رہائی کا مطالبہ دہراتے رہے۔ حالیہ سیاسی مذاکرات میں بھی عمران خان کی رہائی ایک کلیدی ایجنڈا رہی ہے۔ وزیراعظم کے ہمراہ مذاکرات کے دوران پی ٹی آئی نے مطالبہ کیا کہ تمام سیاسی قیدیوں بشمول عمران خان کو رہا کیا جائے۔ تاہم جنوری 2025 کے اختتام تک مذاکرات ناکام ہو گئے۔ 24 جنوری 2025 کو پی ٹی آئی نے حکومتی مذاکرات سے اپنا انخلا کرتے ہوئے اعلان کیا کہ عمران خان کی رہائی کے بغیر وہ بات چیت جاری نہیں رکھ سکتی۔ اس کے بعد ملک میں نئے احتجاجوں کے امکان کی تشویش پائی گئی ہے۔ عوامی رائے کے جائزوں میں اگرچہ تفصیلی اعداد و شمار کم ہیں، مگر عمومی تاثر یہی ہے کہ عمران خان اب بھی بڑے پیمانے پر مقبول ہیں اور ان کے بے گناہ ہونے پر یقین رکھنے والے بہت ہیں۔
مندرجہ بالا حقائق اور بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ فی الحال عمران خان کی فوراً رہائی کی راہ ہموار نہیں کر رہی۔ عدالتوں نے بعض مقدمات میں انہیں جزوی ریلیف (جیسے ضمانت یا بریت) دیا ہے، مگر ان کے خلاف سنگین مقدمات (دہشت گردی، یا بڑے بدعنوانی کے الزام وغیرہ) میں سخت موقف اختیار کیا گیا ہے۔ حکومت کے ترجمان اور فوجی حکام نے اظہار کیا ہے کہ ان کے خلاف “ناقابل تردید ثبوت” موجود ہیں اور مذاکرات کے لیے پی ٹی آئی پر مشکل شرائط عائد کی ہیں۔ بین الاقوامی دباؤ کے باوجود (جیسے امریکہ اور یورپی یونین کی انتباہات اور عالمی سیاستدانوں کی مداخلت)، فی الحال اس سے پاکستانی قیادت کا موقف تبدیل ہوتا نظر نہیں آتا۔ عوام میں عمران خان کے حامی بدستور ان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی اب تک اس مطالبے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوئی۔ کل ملا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی فوری رہائی کی بات پر رضا مند نہیں ہے اور تاحال کوئی ایسا اشارہ نہیں ملا ہے جس سے یہ واضح ہو کہ عمران خان کے حق میں کوئی مؤثر قدم اٹھایا جائے گا ۔
واپس کریں