"تباہی کی سلطنت" کو روکنا انسانیت کی بقا کے لئے لازم ہوچکا ہے۔عمار علی جان

ٹرمپ کا مشرقی وسطی کا دورہ بدلتی ہوئی دنیا کی عکاسی کرتا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ایک ٹرلین ڈالر کے کئی معادوں کے ساتھ ساتھ 142 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے بھی ہوئے ہیں جن کے زریعے جدید ہتھیار سعودی عرب کو منتقل کئے جائیں گے۔ اس معاہدے کی ایک بڑی اہمیت یی بھی ہے کہ یہ اس وقت ہورہے ہیں جب ٹرمپ کے نزدیک نیٹو کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے۔ 1945 کے بعد بنے ورلڈ آرڈر میں امریکہ اپنی فوج اور ڈالروں کے ساتھ مغرب کے اتحادیوں کا دفاع کرتا تھا۔ نیٹو، سیٹو، سینٹو اور دیگر دفاعی معاہدے اسی پالیسی کا حصہ تھے۔ لیکن یوکرائن میں شکست کے بعد نئے ورلڈ آرڈر میں امریکہ ہر خطے کا چودھری تلاش کرے گا تاکہ تاکہ ان کے ذریعے اپنی بالادستی قائم رکھی جاسکے۔
1945 کے بعد اس طرح کے اتحاد سوشلسٹ ریاستوں کے خلاف بنائے جاتے تھے۔ اب آج ان کا ہدف ہر علاقے میں کسی بھی قسم کی مزاحمتی تحریک یا سامراج مخالف حکومت کو کچلنا ہوگا۔ مثال کے طور پر سعودی حکومت نے 2015 سے یمن میں بدترین فوجی کارروائی کی ہے جس کا ہدف ایران نواز اور اسرائیل مخالف Houthi حکومت ہے کیونکہ سعودی بادشاہت کو خطرہ تھا کہ ان کی وجہ سے یمن-سعودی بارڈر غیر محفوظ ہوجائے گا۔ اس جنگ کے بارے میں کم لوگوں کو علم ہے لیکن غزہ کی نسل کشی سے پہلے یمن پر اقتصادی پابندیوں اور امریکی اور سعودی بمباری نے ہزاروں لوگوں کو شہید کیا اور پورے ملک کو قحط زدہ بنادیا۔ اس کے باوجود آج بھی یمینی حکومت خطے کی واحد قوت ہے جو اسرائل کی تجارت میں رکاوٹ ڈال رہی یے۔
سعودی حکومت کی عسکری طاقت بڑھانے کا مطلب اسے اس خطے کا چودھری بنانے کے مترادف ہے۔ اسرائیل کو پہلے ہی یہ رول اپنے اردگرد کے ممالک کے لئے دیا جاچکا ہے جبکہ فروری میں یہی رول جنوبی ایشیا میں ہندوستان کو سونپا گیا جس کا مقصد براہ راست چین کو روکنا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے سعودی عرب کی درخواست پر شام کی نئی انتہا پسند حکومت پر پابندیاں بھی اٹھا لی ہیں۔ یار رہے کہ بشرالاسد کی حکومت 13 سال شدید پابندیوں اور اسرائیلی/امریکی جارحیت کے بعد دسمبر 2024 میں ان گروپوں کے ہاتھوں گری تھی جن کو ایک زمانے میں مغرب خود دہشت گرد کہتا تھا۔ امریکی ورلڈ آرڈر پہلے بھی کسی قسم کے اصولوں کی بنیاد پر نہیں چلتا تھا۔ جمہوریت اور انسانی حقوق صرف اس حد تک استعمال ہوتے تھے جس حد تک امریکی سامراجی عزائم کے لئے وہ کار آمد ہوں۔ لیکن اب ایسا بھی نہیں ہوگا کیونکہ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا ہے کہ ہر ملک کا کلچر الگ ہوتا ہے اور ہمیں کسی کی سوچ بدلنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یعنی معاملات صرف مفادات کے نقطہ نظر سے طے کئے جائیں گے۔
اس انٹرنیشنل آرڈر کے برعکس پچھلے ہفتے ماسکو میں بھی ایک بڑی تقریب ہوئی جس میں روسی اور چینی صدور کے ساتھ ساتھ کیوبا، برازیل، ایران، ویتنام، ونیزویلا، برکینا فاسو، جنوبی افریقہ اور کئی ممالک کے نمائندے شامل ہوئے۔ یہ وہ ممالک ہیں جو کسی نہ کسی طرح امریکی مخالف کیمپ میں شامل ہیں اور ٹوٹتے ہوئے عالمی آرڈر کے اندر ایک نیا لائحہ عمل بنانے چاہتے ہیں۔ اس تقریب کا مقصد دوسری عالمی جنگ میں روس اور تیسری دنیا کے کردار کو خراج تحسین پیش کرنا تھا لیکن اس دوران بیانات میں نئے عالمی آرڈر کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی۔ خصوصی طور پر تجارت اور دفاعی امور زیر بحث آئے جس میں مختلف خطوں میں امریکی جارحیت، دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی، اور چند ممالک کو علاقائی چودھری بنانے کی مذمت کی گئی۔
یہ بات طے ہے کہ امریکہ کے لئے یہ نیا آرڈر قائم رکھنا آسان نہیں ہوگا۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں میں عالمی لیفٹ کا بڑا حصہ اس وجہ سے بھی خوش ہے کیونکہ بھارت کے علاقائی چودھری بننے کے خواب چکنا چور ہوگئے ہیں اور یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ چین کی ٹیکنالوجی کسی بھی لحاظ سے اب امریکی ٹکنالوجی سے پیچھے نہیں رہی۔ مشرقی وسطی سے لے کر افریقہ تک پچھلے 20 سال کی مسلسل بمباری اور نسل کشی کے باوجود اب بھی مزاحمتی تحریکیں خطے میں موجود ہیں اور ان کی مقبولیت میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ افریقہ کے اندر برکینا فاسو، جنوبی افریقی اور کئی دیگر ممالک امریکہ مخالف کیمپ میں آچکے ہیں۔ یہی حال لاطینی امریکہ کا ہے جہاں خطے کی دو بڑی معیشتیں، برازیل اور میکسیکو اس وقت امریکہ سے ناراض ہیں اور ان کی حکومتیں نے چین کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے کرلیے ہیں۔ یہی صورتحال ایشیا میں ASEAN ممالک کی ہے جنہوں نے ٹرمپ کی تجارتی جنگ کے بعد نئے چین کے ساتھ نئے معاہدے کئے ہیں۔ اوپر سے امریکی معیشت اس قابل نہیں کہ ڈالر پھینک کر نئے اتحادی قائم کرے
امریکہ اب کسی ملک میں ڈویلپمنٹ نہیں کرسکتا لیکن آج بھی بدترین تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یعنی امریکہ اپنے زوال کے دوران پوری دنیا کو جنگی جنون میں مبتلا کررہا ہے۔ ۔ اس "تباہی کی سلطنت" کو روکنا انسانیت کی بقا کے لئے لازم ہوچکا ہے۔
واپس کریں